لاس اینجلس کے سفر کی کہانی۔۔۔۔

بعض شہروں اور ملکوں کا سفر کبھی حافظے سے مٹتا نہیں ہے۔ شاید ان یادوں کیساتھ یا تو بے پناہ خوشیاں یا پھر کچھ غم اور دکھ بھی چمٹے ہوئے ہوتے ہیں جو برسوں گزرنے کے بعد بھی دل اور دماغ سے محو نہیں ہوتے۔ میری یادوں کا ایک ایسا ہی سفر کیلی فورنیا کا ہے کیلی فورنیا ریاست، ہائے متحدہ امریکہ کی ایک خوبصورت ریاست ہے جو دنیا کی مشہور ترین جگہوں میں شمار ہوتی ہے۔ ایسی ریاست ہے جہاں مشرق اور مغرب کے لوگ جانا اور رہنا پسند کرتے ہیں۔ ستاروں کی دنیا کے لوگوں کی آماجگاہ ہے اور سیاحوں کی  توجہ کا مرکزہے۔ یہاں کی مشہور ترین جگہوں میں ہالی وڈ، لاس اینجلس، سان فرانسسکو اور لاس ویگاس بھی شامل ہیں۔ دنیا کا ہر امیر شخص ان شہروں کو جانتا ہے اور یہاں کی رونقوں کو پسند کرتاہے۔ لاس اینجلس کا شہر بھی حسین ہے اور میری منزل یہی شہر ہے کچھ عرصہ رہنے کے بعد انسان اس شہر کو دل دے بیٹھتا ہے۔ میں نے اپنی زندگی کی ایک عید قربان اسی شہر میں گزاری تھی اس لئے اس شہر کا غمزدہ لیکن امید بھرا سفر مجھے مجبور کر رہا ہے کہ میں اپنی یادوں کو تحریر کی شکل دے دوں ہم صبح سویرے اسلام آباد کے بے نظیر ائیر پورٹ پہنچ چکے تھے۔ ہماری فلائٹ شاید10 بجے تھی، ڈیپارچر لاؤنج پہنچ کر اعلان ہوا کہ جہاز دو گھنٹے تاخیر سے روانہ ہوگا۔ ڈیپارچر لاؤنج ان حاجی صاحبان سے بھرا ہوا تھا جو جدہ جانے کیلئے اپنے اپنے جہازوں کی روانگی کا انتظار کر رہے تھے۔ ڈیپارچر لاؤنج کو ایک طرح سے حاجیوں نے ہی بھرا ہوا تھا۔ ہر طرف احرام باندھے ہوئے خواتین وحضرات نظر آرہے تھے جنہوں نے  احرام نہیں باندھے تھے وہ چھوٹی سی مسجد میں احرام باندھتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ میں نے کچھ خواتین سے سلام دعا کی اور ان سے التجا کی کہ جب وہ حج کرتے ہوئے دعائیں مانگیں تو میرے سکون دل کیلئے بھی دعا مانگیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اپنے گھر کی زیارت نصیب کردے۔ حج پر روانہ ہونے والوں کے اپنے دل بھی ایسے رقیق ہوئے ہوتے ہیں کہ آنسو ہم دونوں ہی کی آنکھوں میں تھے۔ کیلی فورنیا کی فلائٹ لیٹ ہوئی تو پی آئی اے کی طرف سے مسافروں کیلئے چائے اور بسکٹ کا اہتمام کیاگیا شاید یہ پی آئی اے کا اچھا زمانہ تھا۔ بہرحال مجھے ان کی طرف سے یہ خاطر تواضع کرنا بہت اچھا لگا۔ جہاز میں بورڈنگ کی اناؤنسمنٹ ہوئی اور ہم بھی اپنا بورڈنگ دکھا کر جہاز کی جانب روانہ ہوئے۔ حاجیوں کے جہاز جانے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی۔ نہ جانے کیوں دل میرا بھی غمگین ہی ہوا جا رہا تھا۔ ہمارا جہاز ٹھیک وقت پر روانہ ہوگیا۔ ہماری اس فلائٹ نے بنکاک کے راستے سے ہوتے ہوئے ہانگ کانگ جانا تھا۔ جہاں سے ہم نے ایک ٹرانزٹ کے بعد کورین ائرلائن سے لاس اینجلس کیلئے روانہ ہونا تھا۔ ہماری پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز کا کیپٹن ثاقب تھا کیوں کہ جہاز روانہ ہوتے ہی اس نے مسافروں سے نہ صرف اپنا تعارف کروایا تھا بلکہ کچھ دیر تک خوبصورت کمنٹری بھی کرتا رہا۔ اس نے بتایا کہ ہم نانگا پربت کے پہاڑی سلسلوں سے گزر رہے ہیں شاید نیچے چین کا ملک تھا۔ میں نے جہاز کی کھڑکی سے نیچے دیکھا تو پہاڑوں کا عظیم سلسلہ تھا برفپوش چوٹیاں تھیں،کوئی دریا تھا جو ایک لمبی لکیر کی صورت میں جوش سے بہتا ہوا نظر آرہا تھا۔ ہم دن کے12 بجے اسلام آباد سے چلے تھے اور رات کے آٹھ بجے ہم ہانگ کانگ پہنچے۔ میں نے اس  سے پہلے بچوں کے بغیر کوئی سفر نہیں کیا تھا۔ میرا تقریباً سارا راستہ تسبیح پڑھتے ہوئے اور دعائیں کرتے ہوئے اور بچوں کی صحت وعافیت کی دعائیں کرتے ہوئے گزرتا رہا۔ ہانگ کانگ کے ہوائی اڈے پر ہمارے ساتھ عجیب ہی واقعہ ہوا۔ لینڈنگ سے پہلے اناؤسمنٹ ہوئی کہ جن مسافروں نے اگلی فلائیٹ لینی ہے وہ جہاز سے اتر جائیں اور بنکاک جانے والے مسافر بیٹھے رہیں۔ ہم نے تو بنکاک جانا تھا ہم بیٹھے رہے اور تقریباً سارا جہاز خالی ہوگیا۔ میں کیا دیکھتی ہوں کہ چائنیز عورتوں کی ایک موج ظفر موج جہاز میں گھس آئی۔ کوئی جہاز کا قالین صاف کرنے لگی کوئی کوڑا جمع کرنے لگی کئی عورتیں جہاز کے باتھ روم صاف کرنے لگ گئیں۔ آپس میں چینی زبان بولتے بولتے بے شمار جوان اور بوڑھی عورتوں نے منٹوں میں جہاز کو صاف ستھرا کر دیا۔ میں نے خودبھی واش روم میں جا کر منہ ہاتھ دھویا اور تازہ دم ہونے کی ناکام کوشش کی۔ اتنے میں ایک چائنیز آفیسر جہاز میں اندر آیا۔ سیدھا ہمارے پاس آگیا اور ہمیں ہمارا ٹکٹ دکھانے کیلئے کہا اس نے بتایا کہ آپ نے اسی ہانگ کانگ کے ہوائی اڈے سے کورین ائر لائن لینی ہے آپ یہاں بیٹھ کر کیا کر رہے ہیں یہ جہاز واپس اسلام آباد چلا جائے گا۔ ہوا یہ تھا کہ جہازنے پہلے بنکاک اور پھر ہانگ کانگ آنا تھا۔اسلام آباد میں دو گھنٹے کی فلائیٹ لیٹ ہونے کی وجہ سے وہ پہلے ہانگ کانگ آگیا۔ پی آئی اے  والوں نے اس بات کو کلیئر ہی نہیں کیا اور غلط اناؤنسمنٹ کردی جبکہ ٹکٹ کچھ اور روٹ بتا رہا تھا۔ بہرحال ہم ایک بڑے واقعے سے بچ نکلے پہلے ہی بہت وقت برباد ہوچکا تھا۔ ہم دوڑتے ہوئے ٹرانزٹ لاؤنج پہنچ گئے۔ جہاز کے جانے میں ابھی ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔ ہانگ کانگ کے اس ٹرمینل پر بمشکل 20 سال کی ایک لڑکی بیٹھی تھی۔ ٹرمینل تو وسیع و عریض تھا اور مسافروں کی بھی گہما گہمی تھی۔ ہم جس کاوئنٹر پرگئے وہاں اس نوجوان لڑکی نے میرے خیال کے باکل برعکس جس مہارت سے لاس اینجلس جانے والے جہاز میں ہماری کنفرمیشن کی اور ہمارے سامان کو کورین ائر لائن منتقل کروایا کیوں کہ ہم لیٹ ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں کرسکتے تھے اور ہم اس لائق اور ذہین لڑکی کی تیزی اور پھرتی سے متاثر ہوتے ہوئے ٹرانزٹ لاؤنج میں پہنچے۔ ایک نظر دوڑائی تو لاؤنج جاپانی اور چائینز مسافروں سے بھرا ہوا تھا۔ صرف ایک پاکستانی خاندان نظر آیا۔ سلام دعا کے بعد معلوم ہوا کہ وہ سان فرانسسکو سے رینو (Reno) جا رہے ہیں۔ میں نے پہلی بار رینو کا نام سنا تھا اس لڑکے کی رینو میں شادی ہوئی تھی اب اپنی ماں اور خالہ کے ساتھ جا رہا تھا۔ ان ائیر لائنز میں چوں کہ کھانے کے اپنے معیار ہیں تو ہم نے اپنے کھانے کا آرڈر مسلم کھانے“ کے طور پر ٹکٹ خریدتے ہوئے دے رکھا تھا۔ ائیر ہوسٹس ہمارا بڑا ہی خیال رکھ رہی تھیں۔ کورین ائیر لائن کا جہاز رات12 بج کر40 منٹ پر اڑا اور ایک لمبے سفر کے بعد دن دو بجے ٹوکیو کے ائیر پورٹ پر اتر گیا ابھی ایک لمبا سفر باقی تھا۔