معاشی مسائل کا حل۔۔۔۔۔

یہ خیال اکثر پریشان کرتا ہے کہ کوئی تو وجہ ہوگی کہ ہم تمام تر قدرتی، مادی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود مسائل کا شکار کیوں ہیں۔ چین جو ہمارے بعد آزاد ہوا ہے کی حالت تو اس وقت بہت ہی زیادہ خستہ تھی۔ طویل جنگ نے اسے نڈھال کردیا تھا اور اس کا بنیادی ڈھانچہ برباد ہوگیا تھا۔تعمیر نو کا عمل انتہائی دشوار گزار تھا۔ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ صرف 72سال بعد یہ ملک دنیا کی دوسری بڑی طاقت کا درجہ پائے گا۔ یہ ملک آزادی سے پہلے22 سال تک جنگوں اور خانہ جنگیوں کا شکار رہ چکا تھا۔ جنگوں سے چین کی صنعتوں کو بھی بدترین نقصان پہنچایا اور صرف15 فیصد صنعتیں باقی رہ گئی تھیں۔ 1949 میں کمیونسٹ انقلاب کامیاب ہوا اور کمیونسٹوں نے بیجنگ پر قبضہ کرلیا جس کے بعد اس ملک میں حیرت انگیز ترقی کا سفر شروع ہوگیا۔جب1947میں ہم آزاد ہوئے۔ان کے مقابلے میں ہماری حالت کہیں بہتر تھی۔1947میں جب ہندوستان اور پاکستان کو برطانوی تسلط سے آزادی ملی تو یہ دیگرنو آزاد ملکوں کی طرح تباہ حال نہیں تھے بلکہ کئی حوالوں سے ان سے زیادہ بہتر تھے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے وطن عزیز کو ہر طرح کی نعمتوں سے مالال کیا ہے جن میں چار موسم، کھیت کھلیاں، بہترین نہری نظام،خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں قیمتی پتھر، سونے اور گیس کے ذخائر موجود ہیں لیکن اس سب کے باوجود ہم عالمی اداروں سے قرض لینے پر مجبور ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قدرتی نعمتوں کو کماحقہ استعمال میں نہیں لایا جا رہا یا اس سے استفادہ نہیں کیا جا رہا وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان جیسا قدرتی نعمتوں سے مالامال ملک قرضوں میں جکڑا ہواہو۔اس بنیادی اقتصادی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ عالمی معیشت کا زیادہ تر انحصار پٹرولیم مصنوعات اور اس سے حاصل ہونے والی توانائی کے بیش بہا وسائل پرہے، جس ملک نے اپنے وسائل پر بھروسہ اور اپنی افرادی قوت سے استفادہ کیا وہ اقتصادی اور سماجی میدان میں زقندیں بھرتا رہا، آج دنیا کا معاشی انجن پٹرولیم مصنوعات کا محتاج ہے، لیکن ساتھ ہی متبادل توانائی کے نت نئے سستے وسائل کے استعمال کی جستجو میں لگی ریاستیں توانائی بحران کے خاتمہ کی تگ و دو میں مصروف ہیں جبکہ ہمارے ہاں معاشی روایت سی بن گئی ہے۔ اس وقت حکومتی نمائندوں کے مطابق ملک میں تمام آثار معاشی ترقی کی نشاندہی کر رہے ہیں اور یہ دعوے جھوٹے بھی نہیں کیونکہ بین الاقوامی ادارے بھی پاکستان کی معاشی حالت سدھرنے کا کہہ رہے ہیں۔تاہم حقیقی ترقی اور خوشحالی تو وہی ہے جس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ اسوقت ملک میں کئی میگا پراجیکٹس ایک ساتھ چل رہے ہیں اور ان کی تکمیل کے بعد ان کے مثبت اثرات سامنے آئیں گے۔ توانائی کے سیکٹر میں بھی کئی منصوبے پروان چڑھ رہے ہیں تاہم ضرورت ان میگا پراجیکٹس کے ساتھ ساتھ چھوٹی صنعتوں کے انڈسٹریل کمپلیکس قائم کرنے کی ہے۔ جس کے ذریعے چین اور خطے کے دیگر ممالک نے ترقی کے منازل طے کئے ہیں ان چھوٹی گھریلو صنعتوں سے روزگار کے مواقع بڑھے تو بیروزگاری میں کمی ہوگی اور خوشحالی آئے گی۔ملائیشیاء، انڈونیشیا اورچین میں یہی ہوا جب چین کے صدر شی چن پنگ پاکستان آئے تو انہوں نے حکومت پاکستان کو یہی مشورہ دیا کہ چھوٹی صنعتوں کو فروغ دیں چھوٹے صنعتکار وجود میں لائیں،انڈسٹریل کمپلیکس قائم کریں کیونکہ چین کی ترقی کا باعث بھی یہی سب کچھ بنا ہے۔