طالبان کے ہرات کے مختلف اضلاع میں حملے

کابل: افغان فورسز اور طالبان کے درمیان تازہ جھڑپوں میں ہرات کے ڈسٹرکٹ 10 کے پولیس چیف واحد احمد کوہستانی اور 2 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے۔

صوبہ ہرات کے گورنر عبدالصبورقانی نے اس جھڑپ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ طالبان نے گزشتہ رات ہرات کے مختلف اضلاع میں حملے کئے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ افغان فضائیہ کے حملوں میں 100 سے زائد طالبان جنگجو ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔

افغان میڈیا کے مطابق صوبے ہرات میں افغان فورسز اور طالبان کے درمیان 9 روز سے لڑائی جاری ہے۔

صوبے ہلمند کے دارالحکومت لشکر گاہ میں بھی افغان فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی جاری ہے۔ افغان فورسز نے صوبے لغمان کے ضلع پادپش کا قبضہ طالبان سے واپس لے لیا ہے۔

فغانستان کے سابق نائب صدر جنرل عبدالرشید دوستم علاج کی غرض سے ترکی میں ایک طویل وقت گزارنے کے بعد افغانستان واپس پہنچ گئے دوستم ترکی میں علاج کروانے کے بعد واپس آ گئے ہیں۔

جنرل دوستم واپسی پر اپنے آبائی صوبہ جوزجان گئے جہاں انھوں نے طالبان کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے پیپلز فورسز کی قیادت سنبھال لی ہے۔

افغا نستان کے شمالی صوبہ جوزجان میں پچاس طالبان عسکریت پسندوں نے افغان حکومتی سکیورٹی فورسز کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں جب کہ دوسری جانب اس علاقے میں لڑائی نے شدت اختیار کرلی ہے۔

 دریں اثنا طالبان نے افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کے اس بیان کو مسترد کر دیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ طالبان مستقبل کی حکومت میں لائنز شیئر یعنی بڑا حصہ چاہتے ہیں۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ان کا ذاتی خیال ہے، ہم نے خلیل زاد کی باتیں سنی ہیں لیکن ہم ایک ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جو لوگوں کے اسلامی جذبات کے مطابق ہو۔

 ہم طاقت کی اجارہ داری یا اقتدار میں اہم نوع کی شراکت داری نہیں چاہتے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے لیے کچھ نہیں چاہتے۔ ہم نے اسلام کی خاطر بڑی قربانیاں دی ہیں۔ قوم اب تھک چکی ہے۔ اب یہاں ایک مکمل اسلامی حکومت ہونی چاہیے اور سب لوگوں کو اسے تسلیم کرنا چاہیے۔ اس حکومت میں سب افغانوں کو شریک کیا جائے گا۔

افغان طالبان نے امریکہ کی جانب سے ان افغانستان کے باشندوں کو ویزے فراہم کرنے کے اعلان پر تشویش کا اظہار کیا ہے جنھوں نے امریکی افواج کے لیے خدمات انجام دی تھیں۔ ایسے لوگوں کو ویزے فراہم کرنا ان کے ملک میں کھلی مداخلت ہے۔

طالبان کے مطابق انھوں نے پہلے ہی اعلان کر رکھا تھا کہ امریکی افواج کے ساتھ مترجم اور دیگر حیثیت سے خدمات انجام دینے والے افراد کو امریکی قبضے کے بعد کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

انھوں نے امریکہ اور دیگر ممالک پر زور دیا کہ وہ ایسی دخل اندازی پر مبنی پالیسیوں سے گریز کیا جائے۔ جبکہ ا فغانستان میں طالبان کے بڑھتے حملوں کے پیش نظر صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ ملک کی سکیورٹی فورسز میں نئے اہلکار بھرتی کرنے کا موجودہ طریقہ کار پیچیدہ ہے جسے آسان اور تیز تر بنانے کی ضرورت ہے۔ خصوصی فورسز میں مزید تین ہزار اہلکار بھرتی کرنے کی ہدایت بھی کی۔

انھوں نے طالبان پر ملک میں انتشار اور تفریق پھیلانے کا الزام عائد کیا۔اشرف غنی نے سکیورٹی صورتحال میں بہتری کے اپنے شش ماہی منصوبے کا اعلان بھی کیا ان کا کہنا تھا کہ یہ سوچنا غلطی ہو گی کہ طالبان ماضی کی طرح افغانستان میں حکومت بنا سکتے ہیں،اب ایسا ممکن نہیں رہا ہے۔