اگست کا مہینہ جب بھی آتا ہے ہماری آزادی حاصل کرنے کی خوشیوں کی گونج بھی ساتھ لے کرآتا ہے اور آزادی کی قیمت وہ غلام جان سکتا ہے جو قید وبند کی زندگی دوسروں کی مرضی کے مطابق گزارتا ہے غور کریں آپ اپنے کام کرتے کرتے اچانک ہی کسی اور کے اشاروں کے محتاج ہو جائیں۔ ہندوستان میں ایسا ہی ہوا تھا آزاد ملک کے آزاد شہری اچانک ہی انگریزوں کی غلامی میں چلے گئے تھے۔کئی دہائیوں تک وہ انگریز کے قانون کے مطابق زندگیاں گزارنے پر مجبور رہے اور ان دکھوں اورقتل و غارت کاسامنا کرتے رہے جو انگریز قوم نے حکومت بنانے کے نام پرکی۔ہندو مسلم فسادات کے نتیجے میں مرتے رہے اور ایسی پالیسی کے مطابق جیتے رہے جس میں تقسیم کرو اور حکومت کرو کے اصول نمایاں تھے قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقائے کار نے برسوں کی انتھک محنت اور لگن سے برصغیر کے مسلمانوں کیلئے الگ وطن پاکستان کے نام پر بنایا علامہ اقبال نے ہندوانہ سوچ اور انگریز کی سازشوں کو جان لیا تھا اور خواب دیکھا تھا کہ اک ایسا وطن جو مذہب کے نام پر بنایا جائے جس میں مسلمانوں کو ہر طرح سے اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا حق اور آزادی حاصل ہو‘ یہ اگست کا وہی مہینہ ہے جب1947ء کی چودھویں شب کو یہ عظیم خوشخبری ریڈیو پاکستان سے ہر اس مسلمان نے سنی وہ جو حقیقت میں غلامی اور آزادی کا فرق جانتے تھے قائداعظم کی پاکستان بنانے کے بعد بے شمار توقعات مسلمان قوم اور پاکستانیوں سے وابستہ ہوگئیں نہ جانے آج74سال گزرجانے کے بعد ہم ان امیدوں پر پورا اترے ہیں یا نہیں یہ تو ہمارے بزرگ ہی بتا سکتے ہیں لیکن وہ رہنما‘ وہ بزرگ ہمارے ساتھ موجود نہیں منوں مٹی تلے آسودہ خاک ہیں ایک تصویر جو اخبار میں شائع ہوئی اور بزرگوں کی بے شمار قربانیوں کی یاد دلاتی گئی ملتان میں ایک آٹھ دس سال کا بچہ قائداعظم کی تصویر سے مزین قومی پرچم فروخت کر رہا ہے قائداعظم کی تصویر معصوم بچہ‘ شاید قائداعظم حیات ہوتے تو انہیں بھی اتنا ہی دکھ ہوتا جتنا مجھے یا کسی بھی محب الوطن انسان کو ہو سکتا ہے بھلا اس معصوم بچے کی عمر چھابڑی لگا کر یہ سب فروخت کرنے کی ہے یا کاغذ قلم اور سکول کا کام کرنے کی ہے پاکستان اسلئے قائم نہیں ہوا تھا کہ ہمارے بچے سڑکوں پر کھڑے ہو کر اشیاء فروخت کریں لیکن دن رات میں کتنے ہی معصوم بچے فیکٹریوں میں مزدوری کرتے ہیں چھابڑیاں لگاتے ہیں گھروں میں لوگوں کے بچوں کو گودوں میں کھلاتے ہیں اور برتن جھاڑو کرتے ہیں دن رات جھڑکیاں سنتے ہیں بچا کھچا کھانا کھاتے ہیں اور کسی کونے میں پڑ کر سو جاتے ہیں ایک نئی صبح کے طلوع ہونے تک نہ جانے کیا خواب دیکھتے ہیں‘ ملتان شہر کی اپنی ایک تصویر جو ایک روزنامہ میں شائع ہوئی ہے ایک برقعہ پوش عورت اپنے معصوم سے بچے کے ساتھ بکھرے ہوئے توڑے اور کچرے سے پھل فروٹ چن رہی ہے اگست کا مہینہ اور آزاد ملک کا آزاد بچہ‘ غربت کی حالت اتنی ابتر کہ خوداری اور عزت نفس بھوک پر غالب ہوگئی یہ بچہ جس کے ذہن پر جوان ہونے تک یہ بات ثبت رہے گی کہ وہ کوڑے سے پھل اور سبزی چن چن کر کھایا کرتا تھا نہ جانے وہ کس طرح معاشرے میں مفید شہری بن کر صحت مند دماغ کے ساتھ زندگی گزار سکے گا اور پاکستان کے کس طرح کام آسکے گا روٹی کپڑا اور مکان تو ریاست کا کام ہے کہ وہ مستحق لوگوں کو حکومتی وسائل سے مہیا کرتے ایک تصویر آزادی اور غلامی کے اس احساس کو زیادہ نمایاں کر رہی ہے جسمیں ایک آرمینین اس وقت اپنے ہی گھر کو آگ لگا کر دور کھڑا ہوتے اس کا تماشا دیکھ رہا ہے جب دشمن سپاہیوں نے ان کے شہر کو آزادی کے نام پر قبضہ کر کے وہاں کے رہنے والوں کو وہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور کردیا چونکہ یہ اسکا آبائی گھر ہے وہ اس آزادی کو ماننے سے انکاری ہے خود ہی اپنے گھر کو آگ لگا دی اور آنسوؤں بھری آنکھوں سے دور کھڑا ہو کر اسکو دیکھ رہا ہے۔وہ حکومتوں کے فیصلوں کو نہیں مانتا وہ تو صدیوں سے یہاں رہ رہا تھا اور اب ایک اور ملک کہہ رہا ہے کہ یہ ہماری سرزمین تھی اور اس پر غاصبانہ قبضہ کیاگیا تھا گھر تو گھر ہوتا ہے جب چھن جاتا ہے تو یہ برا دکھ ہوتا اورقبر تک یہ دکھ ساتھ ہی دفن ہونے کو چل پڑتا ہے یہ دکھ سکھ کے سارے رشتے انسانوں سے ہی اٹھتے ہیں اور انسانوں کے ساتھ ہی دوڑتے ہیں ایسی ہی ایک اور تصویر میری نظروں کے سامنے ہیں جس میں ایک شخص پل پر کھڑا ہے نیچے خوفناک لہروں والا دریا روانی کے ساتھ انپے پانیوں کو آگے ہی آگے دھکے دے رہا ہے آج ہی زندگی کا خاتمہ کرنے کیلئے آنے والا شخص کسی کی بھی نہیں سن رہا کئی لوگ اسکو پکڑ کے باز رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں ایک کمزور اور ضعیف شخص اپنے لمبی چھڑی کو اسکی پتلون کی بیلٹ میں اڑس دینے میں کامیاب ہو چکا ہے یہ تصویر ایک دفعہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ انسان کا انسان سے کیا رشتہ ہے اک ایسا دکھ سکھ کا رشتہ‘ انسانیت کا رشتہ‘ کہ جس میں وہ اس کا یوں کود کر جان لے لینا برداشت نہیں کر سکتا وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح وہ اس سوچ سے باز آجائے اور زندگی کی طرف واپس پلٹ آئے کہ زندگی نعمت ہے آزادی نعمت ہے اللہ تعالیٰ کی عطائی ہوئی نعمتوں میں سے گراں قدر نعمت اور اسکی منزلت ہماری سوچ پر منحصر ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کی عید اور سادہ سی یادیں
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
داستان ایک محل کی
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
محل سے کھنڈر بننے کی کہانی اور سر آغا خان
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
شہزادی درشہوار
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
پبلک مائن سٹیٹ آرکنساس امریکہ
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو