طالبان کابل میں داخل، عام معافی کا اعلان، اشرف غنی ملک چھوڑ گئے تاجکستان جانے کی اطلاع، سابق وزیرداخلہ علی احمد الجلالی عبوری حکومت کے سربراہ ہوں گے

کابل: طالبان جلال آباد اور مزار شریف کو فتح کرنے کے بعد کابل کے مضافات میں داخل ہوگئے جب کہ ترجمان طالبان نے دارالحکومت میں پُرامن طریقے سے داخل ہونے اور عام معافی کا اعلان کیا ہے دوسری جانب صدارتی محل میں اقتدار کی منتقلی اور عبوری حکومت کے قیام پر مذاکرات جاری ہیں جس میں اشرف غنی حکومت چھوڑنے کو تیار ہوگئے ہیں۔

افغان میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ صدارتی محل میں جاری مذاکرات کے بعد صدر اشرف غنی اہل خانہ سمیت ملک چھوڑ کر چلے گئے جب کہ عبوری حکومت کے لیے سابق وزیر داخلہ احمد علی جلالی کے نام پر غور کیا جا رہا ہے۔ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ افغان صدر تاجکستان چلے گئے ہیں۔

قبل ازیں افغانستان کی وزارت داخلہ نے بتایا تھا کہ طالبان کابل میں تمام اطراف سے داخل ہوگئے۔ سائرن بج رہے ہیں اور چاروں طرف سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں جب کہ فضا میں ہیلی کاپٹر پرواز کر رہے ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان کی وزارت داخلہ نے بتایا ہے کہ طالبان کابل میں تمام اطراف سے داخل ہوگئے۔ سائرن بج رہے ہیں اور چاروں طرف سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں جب کہ فضا میں ہیلی کاپٹر پرواز کر رہے ہیں۔

افغانستان کے قائم مقام وزیر داخلہ عبدالستار مرزاکوال نے مزید بتایا طالبان اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں طے پایا ہے کہ طالبان کابل پر حملہ نہیں کریں گے اور کابل حکومت اقتدار عبوری حکومت کو منتقل کردے گی۔ عبوری حکومت کے قیام کے لیے مذاکرات تاحال جاری ہیں۔

طالبان کابل کے داخلی دروازوں پر کھڑے ہیں اور اپنے امیر کے احکامات کے منتظر ہیں۔ افغان فوج کی جانب سے مزاحمت نہیں کی گئی اور کابل حکومت بھی مذاکرات پر آمادہ نظر آتی ہے۔ ملا عبدالغنی برادر سمیت اہم طالبان رہنما کابل پہنچ گئے۔

افغانستان میں ترجمان طالبان نے اعلان کیا ہے کہ وہ دارالحکومت کو طاقت کے ذریعے فتح کرنے کا منصوبہ نہیں رکھتے اور نہ ہی کسی سے انتقام لیں گے۔ ہمارے جنگجو کابل کے داخلی دروازوں پر کھڑے ہیں اور پُر امن طریقے سے داخل ہونا چاہتے ہیں۔

دوسری جانب دوحہ میں طالبان کے ترجمان کا بھی یہی کہنا ہے کہ کابل میں داخل ہونے والے جنگجوؤں کو تشدد سے گریز کا حکم دیا گیا ہے جب کہ جو بھی مخالف لڑائی کے بجائے امن پر آمادہ ہو انھیں جانے دیا جائے گا اور خواتین سے محفوظ علاقوں میں جانے کی درخواست کی ہے۔

عینی شاہدین نے عالمی میڈیا کو بتایا کہ دارالحکومت میں طالبان جنگجوؤں کو بہت ہی معمولی مزاحمت کا سامنا رہا ہے۔ کابل یونیورسٹی آج صبح ہی خالی کردی گئی تھی اور تمام طالبات گھروں کو جا چکی ہیں۔ عوام گھروں میں محصور ہوگئے ہیں۔

کابل حکومت نے اس تمام صورت حال پر مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے تاہم صدر اشرف غنی کے چیف آف اسٹاف نے ٹویٹر پر کابل کے لوگوں پر زور دیا ہے کہ براہ کرم فکر نہ کریں۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے. کابل کی صورتحال کنٹرول میں ہے تاہم تین افغان حکام نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ جنگجو دارالحکومت کے کالکان ، قرا باغ اور پغمان اضلاع میں موجود ہیں۔

دوسری جانب امریکی حکام نے بتایا کہ سفارت کاروں کو سفارت خانہ سے قلعہ بند وزیر اکبر خان میں واقع ہوائی اڈے پر لے جایا جا رہا یے جب کہ مزید امریکی فوجی انخلاء میں مدد کے لیے بھیجے جا رہے ہیں۔

ادھر برطانوی سفارت کاروں اور برطانوی فوج کے لیے مترجم کا کام انجام دینے والے افغان شہریوں کی منتقلی کا عمل بھی جاری ہے۔ وزیر اعظم بورس جانسن کی ہدایت پر برطانوی فوج ان افراد کو لینے پہنچ گئی ہے۔

طالبان جنگجو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں داخل ہوگئے ہیں اور بزور طاقت قبضہ نہ کرنے کے وعدے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ وہ اقتدار کی پر امن منتقلی کے منتظر ہیں۔

غیر ملکی خبررساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق ایک عہدیدار نے بتایا کہ طالبان تمام اطراف سے داخل ہورہے ہیں البتہ انہوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

عسکریت پسندوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ دارالحکومت کابل پر بزور طاقت قبضہ نہیں کریں گے۔

ایک آن لائن بیان میں طالبان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے جنگجوؤں کو کابل کے دروازے پار کر کے طاقت کے ذریعے شہر کا کنٹرول نہ حاصل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کابل کے شہریوں کی زندگی، املاک، عزت پر سمجھوتہ کیے بغیر اقتدار کی محفوظ منتقلی کا عمل یقینی بنانے کے لیے مذاکرات جاری ہیں'۔

طالبان ترجمان نے قطر نشریاتی ادارے الجزیرہ سے بات کرتے ہوئے وہ کابل شہر کی پر امن منتقلی کا انتظار کررہے ہیں تاہم انہوں نے جنگجوؤں اور حکومت کے درمیان ہونے والی بات چیت کی تفصیلات بتانے سے انکار کیا۔

البتہ معاہدے کی تفصیلات کے اصرار پر سہیل شاہین نے اعتراف کیا کہ وہ مرکزی حکومت کے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

ایک طالبان عہدیدار نے خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ گروپ اقتدار کے حصول میں کوئی جانی نقصان نہیں چاہتا لیکن اس نے جنگ بندی کا اعلان بھی نہیں کیا ہے۔

دوسری جانب طالبان مذاکرات کار اقتدار کی پر امن منتقلی کے لیے بات چیت کرنے افغان صدارتی محل روانہ ہوئے، حکام کا کہنا تھا کہ یہ واضح نہیں کہ اقتدار کی منتقلی کب ہوگی۔

دوسری جانب ایک ویڈیو بیان میں افغان قائم مقام وزیر داخلہ نے کہا کہ کابل پر حملہ نہیں کیا جائے گا اور اقتدار کی منتقلی پر امن ماحول میں ہوگی۔

امریکی صدر کی مزید ایک ہزار فوجی بھیجنے کی منظوری

امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان میں موجود امریکیوں کے محفوظ انخلا کے لیے مزید ایک ہزار اہلکاروں کی تعیناتی کی اجازت دے دی جس کے بعد محفوظ انخلا کے لیے مقرر کیے امریکی فوجیوں کی تعداد 5 ہزار ہوجائے گی۔

خبررساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی فوجی اہلکار 2 دہائی سے جاری جنگ کے دوران غیر ملکی افواج کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کے انخلا میں بھی مدد کریں گے۔

آخری لمحات میں ہزاروں امریکی فوجیوں کی دوبارہ تعیناتی افغانستان کی گھمبیر سیکیورٹی صورتحال ظاہر کررہے ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے ہی ایک امریکی خفیہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ کابل پر قبضے میں 3 ماہ کا عرصے لگ سکتا ہے۔

ایک امریکی عہدیدار نے بتایا کہ امریکی ٹیم کے اہم ترین اراکین کابل ایئرپورٹس سے کام کررہے ہیں جبکہ نیٹو حکام کا کہنا تھا کہ یورپی عملے کے اراکین کو دارالحکومت میں نامعلوم محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔

قبل ازیں امریکی شہریوں کے انخلا کے لیے ایک ہزار امریکی فوجی رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم حکام کو یہ تعداد ناکافی معلوم ہوئی جس کے بعد مزید 3 ہزار فوجی بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا اور اتوار کے روز اس میں ایک ہزار اہلکاروں کا اضافہ کرنے کا اعلان سامنے آیا۔

طالبان کا بغیر مزاحمت جلال آباد پر قبضہ

افغان صدارتی محل کی ایک ٹوئٹ میں بتایا گیا کہ کابل کے اطراف میں متعدد مقامات پر فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں لیکن سیکیورٹی فورسز بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ شہر کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔

اس سے قبل طالبان نے مزاحمت اور لڑائی کے بغیر افغانستان کےشہر جلال آباد پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد افغان حکومت کا کنٹرول دارالحکومت کابل تک ہی محدود ہوگیا تھا۔

طالبان کے کنٹرول والے صوبائی دارالحکومت—نقشہ: اے ایف پی

طالبان کے کنٹرول والے صوبائی دارالحکومت—

خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق جلال آباد کے سقوط نے طالبان کو اس سڑک کا کنٹرول بھی دے دیا جو پاکستان کے شہر پشاور کو افغانستان سے ملاتی ہے اور ملک کی اہم ترین شاہراہوں میں سے ایک ہے۔

اس سے قبل طالبان نے ملک کے چوتھے بڑے شہر مزار شریف پر بھی قبضہ کرلیا تھا جس کا دفاع 2 سابق وار لارڈز نے کرنے کا وعدہ کیا تھا، یوں طالبان کو افغانستان کے پورے شمالی حصے پر قبضہ حاصل ہوگیا۔

جلال آباد میں ایک افغان عہدیدار نے بتایا کہ شہر میں کوئی لڑائی نہیں ہورہی کیوں کہ گورنر نے طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور انہیں راستہ دینا شہریوں کی زندگی بچانے کا واحد راستہ تھا۔

ایک دوسرے سیکیورٹی عہدیدار نے کہا کہ طالبان نے حکومتی عہدیداران اور سیکیورٹی فورسز کو جلال آباد سے نکلنے کی صورت میں محفوظ راستہ دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

دوسری جانب ہفتہ کو طالبان جنگجو مزار شریف میں بھی مزاحمت کے بغیر داخل ہوگئے کیوں کہ سیکیورٹی فورسز شاہراہ سے پڑوسی ملک ازبکستان کی جانب بھاگ گئیں۔

ایسے میں حکام نے شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ افغان صدر کے 2 اتحادی وار لارڈز عطا محمد نور اور عبدالرشید دوستم ازبکستان فرار ہوگئے۔

اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی غیر مصدقہ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ افغان فوج کی گاڑیاں اور یونیفارم میں ملبوس آدمی افغان قصبے حیرتان اور ازبکستان کے درمیان لوہے کے پل پر جمع ہورہے ہیں۔

دوسری جانب عسکریت پسندوں نے اتوار کی صبح تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ کیں جن میں انہیں صوبہ ننگر ہار کے دارالحکومت جلال آباد میں گورنر کے دفتر میں دیکھا جاسکتا ہے۔

ادھر کابل میں امریکی سفارت خانے کے عملے کو حکم دیا جاچکا ہے کہ وہ حساس مواد کو جلانا شروع کردیں جبکہ برطانیہ، جرمنی، ڈنمارک اور اسپین سمیت یورپی ممالک اپنے متعلقہ سفارت خانوں سے اہلکاروں کو واپس بلانے کا اعلان کر چکے ہیں۔

کابل کے باشندوں کے ساتھ ساتھ دارالحکومت میں پناہ لینے والے ہزاروں افراد بھی خوف اور عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہیں۔

طالبان کی پیش قدمی

واضح رہے کہ افغانستان میں امریکا نے 2001 میں پہلی مرتبہ طالبان حکومت کے خلاف حملے شروع کیے تھے، جو نائن الیون حملوں کا نتیجہ تھا۔

تاہم 2 دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے بعد گزشتہ برس فروری کو امن معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے غیر ملکی افواج کے انخلا اور افغان حکومت کی طالبان کے ساتھ بات چیت پر اتفاق ہوا تھا۔

افغانستان میں جاری لڑائی میں رواں برس مئی سے ڈرامائی تبدیلی آئی جب امریکا کی سربراہی میں افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج کے انخلا کی تاریخ کا اعلان کیا گیا تھا اور رواں مہینے کے اختتام سے قبل انخلا مکمل ہوجائے گا۔

جس کے پیشِ نظر طالبان کی جانب سے پہلے اہم سرحدی علاقوں پر قبضہ کیا گیا اور پھر برق رفتاری سے صوبائی دارالحکومتوں پر قبضہ کرتے چلے گئے۔

چند روز قبل ایک امریکی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ طالبان 30 روز میں کابل پر قبضہ کرسکتے ہیں۔