ایک کینیڈین گوری سے پوچھا کیا آپ کو علم ہے کینیڈا کا جھنڈا سرنگوں ہے بھلا ایسا کیوں ہے؟ اس نے انکار میں سرہلایا اورکہا اچھا‘ میں نے تو اس طرف دھیان ہی نہیں دیا مغرب اور مشرق کے باشندوں میں ایک بڑا واضح فرق سیاسی شعور کاہے ان کو اپنے یا آس پاس کے رہنماؤں‘ پارٹیوں اور حکومتوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ان سب کو صرف اس بات سے غرض ہوتی ہے کہ ان کا روزگار لگا رہے ان کی جان و مال محفوظ رہے اور وہ آزادی کیساتھ زندگیاں گزار سکیں اور یہ تمام کام ان کی عین مرضی کے مطابق ہو جاتے ہیں۔مجھے علم تھا کہ کینیڈا کا جھنڈا گزشتہ کئی ہفتوں سے سرنگوں ہے کیونکہ فسٹ سیشن کے بچوں کے قتل عام کا غم اور سوگ کینیڈا میں اتنا بڑا ہے کہ انگریزوں کو اپنی حفاظتوں کیلئے نہ صرف سرکاری دفاتر اور پارلیمنٹ کے سامنے لوہے کی چادریں لگانا پڑ گئی ہیں بلکہ امن اور انسانیت کا دعویٰ کرنے والے کینیڈا کے ملک نے اپنی خوشیاں اور جھنڈا تک جھکا دیا ہے‘ کینیڈا کے دارالخلافے میں پھرتے پھرتے ایسی کئی باتیں ذہن میں آتی ہی چلی گئیں مشرقی ممالک کے لوگوں کا سیاسی شعور اور سمجھ بوجھ بہت زیادہ ہے اور بہترین ہے بظاہر بالکل غیر تعلیم یافتہ شخص کو بھی رہنما کی خوبیاں خامیاں معلوم ہوتی ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ تعلیمی شعور نہ رکھنے کی وجہ سے اچھے اور برے کی تمیز کرنے سے قاصر ہوتا ہے آٹوہ میں گھومتے ہوئے یہ بات شدت سے نوٹ کی کہ یہاں کورونا نام کی کوئی بیماری نہیں ہے لوگ بغیر ماسک لگائے گھوم رہے ہیں اور بھیڑ میں بھی ان کو کسی قسم کی پرواہ نہیں ہے صرف دوکانوں کے اندر جاتے ہوئے تھوڑی سی دیر کیلئے ماسک چڑھا لیتے ہیں کہ دوکان کے اندر بغیر ماسک کے جانا سزاوار ہے گرمی کی شدت زیادہ ہے ٹوپی‘ چشمے اور پانی پینے کے باوجود پاکستان والی گرمی کا سماں ہے اکتوبر میں ایک دفعہ میں یہاں آئی تھی تو برف‘ ہوا اور سخت سردی سے یہاں پر چلنے سے قاصر تھی کینیڈا جہاں گرمی صرف چندگھنٹوں یا دنوں کی ہوتی تھی جغرافیائی ماحولیاتی تبدیلیوں میں اب اس کے بیشتر شہروں میں گرمی کی لہر آجاتی ہے اور گرمی برداشت نہ کرنے والے نازک لوگ دیکھتے ہی دیکھتے موت کی دہلیز پر جاپہنچتے ہیں ہم نے مناسب سمجھا کہ ہم آٹوہ شہر کے درمیان میں سے گزرنے والے دریا کے ذریعے پورے شہر کی عمارتوں کی سیر کریں اسلئے ہم نے یہاں چلنے والے کروز کے ٹکٹ لئے جو31ڈالر فی کس تھا حیرت تو اس وقت ہوئی جب ہمارے سات مہینے کے بچے کے بھی19ڈالر اس نے مانگ لئے اسکی ماں نے کہا کہ یہ تو سویا رہتا ہے اور شہر کو نہیں دیکھ سکتا لیکن بتایا گیا کہ ہمارا اصول ہے کہ بچہ یا شیر خوار اور بڑا سب ٹکٹ لے کر ہی کروز پر سیر کرینگے دریا میں‘ ٹیکسیاں بھی روانہ تھیں جو اشارہ کرنے پر رک جاتی تھیں اور زیادہ کرایہ لے کر ایک یا دو سواریوں کو شہر کی سیر کرواسکتی تھیں لوگ اپنی ذاتی کشتیاں بھی لائے ہوئے تھے کینیڈا میں گاڑیوں کی طرح کشتیوں کے بھی لائسنس حاصل کرکے ہی ان کودریاؤں یا جھیلوں میں اتارا جاسکتا ہے کروز کا سفر ڈیڑھ گھنٹے کا ہے ہر ڈیڑھ گھنٹے کے بعد کروز واپس آتا ہے اور انتظار کرتی ہوئی سواریوں یا سیاحوں کو لے جاتا ہے دو منزلہ کروز میں پلاسٹک کی بے شمار کرسیاں پڑی ہیں ہر قوم و ملک کا سیاح یہاں موجود ہے ہمارے بیٹھتے ہی ایک دبلی پتلی سی گوری لڑکی نے مائیکرو فون سنبھال لیا اور سب سیاحوں کو خوش آمدید کہا۔وہ بیک وقت دو زبانوں پر عبور رکھتی تھی انگریزی اور فرانسیسی جو کینیڈا کی سرکاری زبانیں ہیں اس گائیڈ کو آٹوہ کی تاریخ پر دسترس تھی کروز کے چلتے ہی اس نے دائیں طرف کی عمارتوں کا تعارف کروانا شروع کردیا جو واقعی میں اپنے اندر تاریخ کے اوراق چھپائے ہوئے تھیں راستے میں ایک حسین آبشار آئی جس پر کروز نے تین چار دفعہ گھما کر سیاحوں کو تصاویر بنانے کا موقع دیا میں نے نوٹ کیا کہ کروزمیں عربی لوگ زیادہ ہیں اور افریقی باشندے بھی تعداد میں بہت زیادہ ہیں پاکستانیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے کروز میں امیگرنٹ یا سیاحوں نے جی بھر کے اپنے اپنے ملکوں کے کلچر کے مطابق ہلاگلا کی۔کوئی بھی تو ایسا نہیں تھا جو ٹک کر کرسی پر بیٹھا ہو اور خاموشی سے سیاحت کا لطف اٹھایا ہو۔ انکے بچے بھی ایسے ہی تھے دوڑ بھاگ رہے تھے اور اپنے تئیں شہر کو دیکھنے کا فریضہ ادا کر رہے تھے کروز کے اردگر د مضبوط لوہے لگے ہوئے تھے ورنہ تو لوگوں کا یوں آزادانہ پھرنا اور بچوں کا بے دریغ دوڑنا حادثے کا سبب بھی بن سکتا ہے گائیڈ نے حفاظتی انتظامات پر تفصیل سے گفتگو کی ہوتی ہے۔کروز کی دونوں منزلیں پوری طرح لوگوں سے بھر ی ہوئی تھیں یہ کروز دن میں کئی مرتبہ سیاحوں کے پھیرے لگاتا ہے اور اسکی آمدنی ہزاروں ڈالر میں ہے ترقی یافتہ ممالک نے اپنے شہروں کی اندرون سیاحت کو بھی کتنے حسین طریقے سے ڈالروں سے جوڑ دیا ہے اگر سڑک کے ذریعے شہر دیکھنا ہے تو کئی بسیں شہر کے اندر سیر کرانے کیلئے (ٹکٹ لے کر) تیار کھڑی ہیں جو دو منزلہ میں اور شہر کو گھوم پھر کر دکھاتی ہیں ان ممالک کا مٹی سے بھی پیسہ کمانا مقصد حیات ہے ان کا بس چلے تو سانس لینے پر بھی ٹیکس یا ٹکٹ لگادیں ورنہ تو کوئی کام بھی بغیر پیسے کے نہیں ہو سکتا جو رشوت یا کرپشن نہیں بلکہ قانونی طورپر کمایا جاتا ہے سہولیات دی جاتی ہیں اور اس کے بدلے میں پیسہ لیا جاتا ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کی عید اور سادہ سی یادیں
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
داستان ایک محل کی
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
محل سے کھنڈر بننے کی کہانی اور سر آغا خان
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
شہزادی درشہوار
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
پبلک مائن سٹیٹ آرکنساس امریکہ
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو