افغانستان میں طالبان حکومت کے نئے دور کا آغاز ہوگیا ہے، اور انہوں نے دنیا کو دعوت دی ہے کہ وہ عالمی برادری کے ساتھ مل کر چلنا چاہتے ہیں۔ چند ہی دن میں ان کی حکومت کے ابتدائی خدوخال بھی واضح ہوتے جائیں گے اور دیکھا جائے تو ماضی کے برعکس انہوں نے کافی مصالحانہ رویہ رکھا ہے اور افغانستان کے دارالحکومت کابل پر کنٹرول کے بعد طالبان نے ملک بھر میں عام معافی کا اعلان کر دیا ہے۔ اب جبکہ امریکہ افغانستان سے مکمل طور پر جا چکا، افغانستان ایک خود مختار پالیسی کے ساتھ دنیا کے ساتھ تعلقات کیلئے تیار کھڑا ہے۔ ا نہوں نے کھل کر اعلان کیا ہے کہ ہم یہ اجازت نہیں دیں گے کہ کوئی ہماری زمین پر کسی کو نشانہ بنائے یا ہماری زمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرے۔ ہم دنیا کے ساتھ پر امن تعلقات کے خواہاں ہیں۔افغانستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں پاکستان اور دیگر پڑوسی ممالک کا کردار انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے، کیونکہ طالبان نے عام معافی، مخالفین کے ساتھ بات چیت اور ہر کسی کے جان ومال کے تحفظ کا اعلان کرکے قیام امن کی اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔عالمی برادری کو ان کے ان اعلانات کی قدر کرتے ہوئے مذاکرات کی کوششوں اور ایک متفقہ سیٹ اپ کے قیام میں ان کی مدد کرنی چاہے، پاکستان بھی اس حوالہ سے اپنا کردار ادا کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں بھارت کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے افغان راہنماؤں کو بھی اس بات کا اندازہ ہو گیا ہے کہ بھارت ان کے ذریعہ سے افغانستان میں شرکی آبیاری کرتا رہا ہے اور اب بھی وہ انہیں استعمال کرتے ہوئے خونریزی ہی چاہتا ہے، یہ سب لوگ اس وقت مشاورت اور راہنمائی کے عمل میں شریک ہیں۔ تاہم بھارت اب بھی میڈیا اور اپنی پروپگنڈہ مشینری کے ذریعہ سے شرانگیزی پر تلا ہوا ہے، اسے سمجھ جانا چاہیے کہ حالات بدل چکے ہیں، اب اس کی شر انگیزی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ہمارے خیال میں افغانستان کے پڑوسی ممالک خصوصاً پاکستان، روس اور چین کی ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کو بتائیں کہ اسے اب طالبان کے بارے میں اپنی سوچ بدلنا ہوگی۔20سال امریکہ اورا س کے اتحادیوں نے جن لوگوں کو دبایا، پابندیاں لگائیں، قیدوبند میں رکھا، بدترین ذہنی وجسمانی تشدد کا نشانہ بنایا وہ وہیں سے اپنے سفر کا آغاز کر رہے ہیں جہاں سے ان کا راستہ روکا گیا تھا۔ طالبان نے ناصرف دنیا کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کیا ہے بلکہ انہوں نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا بھی ہے توقع یہ کی جاتی ہے کہ اب یہ نئی سیاسی ومعاشی طاقت کے طور پر سامنے آئیں گے۔کیونکہ موجودہ قیادت افغانستان میں تعمیر وترقی کے منصوبوں پر کام کرنے کا عزم رکھتی ہے اور خطے میں پائیدار امن کیلئے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہاں ہے۔ کابل میں داخل ہونے کے بعد سے اب حکومت کے قیام کے مرحلے تک انہوں نے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ ان کے امن پسند، صلح جواور معاملہ فہم ہونے کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے۔ پاکستان، چین، ایران،روس اور افغانستان میں ممکنہ طور پر طالبان کی حکومت کے اشتراک سے خطے میں طاقت کا توازن اور معاشی سرگرمیوں کارجحان بدلنے جا رہا ہے۔ افغانستان میں جلد از جلد استحکام لاناعالمی برداری کی ذمہ داری اورپورے خطے کے مفاد میں ہے۔افغان قوم نے بیرونی دخل اندازی اور غیر ملکی تسلط کو ہمیشہ کی طرح اب بھی مسترد کر دیا ہے۔ افغانستان پر برطانیہ نے قبضہ کی کوشش کی تھی جب انہوں نے متحدہ ہندوستان پر قبضہ کیا تھا تو برطانیہ کو ناکامی ہوئی تھی۔ پھر روسی فوجیں آئیں، یہ تو ہمارے سامنے کا معاملہ ہے اور اپنا پورا زور صرف کیا مگر افغانستان نے بحیثیت افغان قوم قبول نہیں کیا، سوویت یونین کی افواج کو ناکام واپس جانا پڑا بلکہ اس کے نتیجے میں خود سوویت یونین بکھر کر رہ گئی۔ تیسرا مرحلہ یہ کہ جب امریکی اتحاد کی فوجیں آئیں تو افغان قوم نے اس کو بھی قبول نہیں کیا اور مزاحمت کی‘امریکی اتحاد کی فوجی یلغار کے خلاف مزاحمت میں وہ تنہا تھے۔پر یہ بات ایک دفعہ پھر واضح ہو گئی کہ افغان قوم خود پر کسی دوسرے کا تسلط قبول نہیں کرتی۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ طالبان کی طرف سے اعلانات اور حکمت عملی اس سلسلہ میں حوصلہ افزا ہے۔ہمارے نزدیک قومی وحدت کا ماحول قائم کرنا افغانستان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اس موقع پر عالمی برادری اور مسلم ممالک کے ساتھ ساتھ پڑوسی ممالک کو بھی اعتماد میں لینے اور اعتماد میں رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ افغانستان اپنے نئے قومی سفر کا آغاز بہتر انداز میں کر سکے اور کسی کو اس میں دخل اندازی کا موقع نہ ملے۔ان حوالوں سے مسلم ممالک کی ذمہ داری سب سے زیادہ بنتی ہے کہ وہ اپنے مثبت اور موثر کردار کے ساتھ سامنے آئیں اور تہذیبی اور قومی مقاصد و اہداف کے حصول میں افغان قوم کے معاون بنیں۔