میری پرنسپل نے تمام سکول کی طالبات میں مجھے ایسی طالبہ کے طور پر منتخب کیا جس کی لکھائی اچھی تھی دراصل وہ اپنی ایک پروفیسر دوست کیلئے نوٹس کو کاپی کروانا چاہتی تھیں ان دنوں یعنی 70ء کی دہائی میں پشاور میں فوٹو کاپی مشین موجود نہیں تھی‘کسی کاغذ کی کاپی یعنی نقل بنانے کیلئے سائیکلو سٹائل مشین کا سہارا لیا جاتا تھا جو صرف اداروں میں موجود ہوتی تھی‘ جسکے خاص قسم کے کاغذ پر خوش خط تحریر کیا جاتا تھا اور اس خاص قسم کے کاغذ کو سائیکلو سٹائل مشین کے اندر ڈال کر اس سے ایک یا کچھ زیادہ کاپیاں کی جاتی تھیں‘ ہر اگلی کاپی نکلتے وقت دھندلی ہوتی جاتی تھی اور یہ اسوقت کی جدید مشین تھی‘ ہمارے گھر میں ایک ٹی وی نیا نیا آیا تھا اور پوری گلی میں صرف ہمارے گھر میں ہی تھا جو باڑہ یا لنڈی کوتل سے وقت کے حساب سے مہنگی ترین اشیاء میں شمار ہوتا تھا‘ٹی وی کی ایجاد اتنی حیران کن اور عجوبے کی طرح تھی کہ کوئی بھی اس ٹانگوں والے ڈبے کے سامنے سے ہٹنے کو تیار نہ ہوتا تھا‘ صرف پاکستان ٹیلی ویژن کی نشریات ہی ہوتی تھیں قومی ترانے سے شروع ہونے والے یہ پروگرام رات 11-10بجے قومی ترانے پر اختتام پذیرہوتے تھے‘ ہمارے گھر میں گلی کے بچوں کی بھرمار ہوتی تھی جو یہ حیرت انگیز کردار کالی سکرین پر چلتے پھرتے دیکھ کر عجیب لطف محسوس کرتے تھے‘ یہ روسی ٹی وی تھا ان دنوں روس کی الیکٹرانک اشیاء افغانستان کے راستے سمگل ہوکر باڑہ کی دکانوں کی زینت بنتی تھیں‘ خاص طور پرٹی وی‘برتن‘ کپڑے‘ صابن وغیرہ‘وقت کیساتھ ساتھ ٹی وی میں نقائص آنا شروع ہوجاتے تھے ہمارا ٹی وی کئی بار جوتا مارنے سے چلنے لگتا تھا‘اب سوچتی ہوں تو بے اختیارچہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے‘ کمرے کی ایک نکڑ پر رکھا ہوا چار ٹانگوں پر کھڑا یہ کالی سکرین والا ٹی وی کبھی نہیں بھولتا‘ شیلف میں رکھا ہوا ایک ریڈیو تھا جو جرمنی کا بنا ہوا تھا جس پر ویڈیو سیلون آل انڈیا ریڈیو کی رات گئے نمائشی پروگرام‘تعمیل ارشاداور خالہ بی جان کا پروگرام قہوہ خانہ سب کے دل پسند پروگرام تھے‘واشنگ مشین جب بازار میں آئی تو ہماری مائیں یقین کرنے کو تیار نہیں تھیں کہ ہمارے ہاتھوں کے بغیر بھی کوئی چیز کپڑے دھوسکتی ہے‘میں زبردستی واشنگ مشین گھر لے آئی‘ سٹیل کی بنی ہوئی چھوٹی سی مشین نے میری ماں کو سکھ کے بہت سامان مہیا کردیئے اور پھر واشنگ مشین کی شہرت ایک منہ سے نکل کر کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور کوٹھے پر لے جاکر کپڑے سکھانے کی بجائے سکھانے والی مشین میں جب کپڑے سوکھ کر نکل آئے تو اس حیرت انگیز ایجاد نے پشاور کی سادہ دل عورتوں کے دل بھی موہ لئے‘میں جب اپنی نوکری کیلئے براڈکاسٹنگ اکیڈمی کے اندرگئی تو وہاں بھی سکولوں کی طرح امتحانی پرچے چھاپہ خانوں میں پرنٹ ہونے جاتے تھے اورسائیکلوسٹائل مشینوں پر کاپی کرکے ٹرینرز کو پکڑائے جاتے تھے اس سلسلے میں ریڈیو پاکستان میں باقاعدہ خوش نویس کی ایک پوسٹ ہوتی تھی جوہر سٹیشن پر خوش خط لکھائی کیلئے مختص تھا اور ریڈیو سٹیشنوں پرڈرامے کے کرداروں کے لحاظ سے کاپیاں اپنے ہاتھ سے بنایا کرتا تھا‘یہ 1980ء کی دہائی تھی‘1993ء میں جب میں ایک ٹریننگ کے سلسلے میں کولمبو گئی تو فوٹوکاپی مشین کو دیکھ کر حیران ہوگئی وہاں کی ٹریننگ اکیڈمی جدید مشینوں سے آراستہ تھی کمپیوٹر کی ٹریننگ لیتے وقت تو میں دنگ رہ گئی‘ماؤس ہاتھ سے نکل نکل جاتا تھا‘ میں نے اپنے انسٹیٹیوٹ میں یہ دونوں جدید مشینیں نہیں دیکھی تھیں لیکن 1990ء کی دہائی کے آخر تک یہ مشین پاکستان کے اداروں کو ملنا شروع ہوگئی‘فوٹوکاپی مشین کی اہمیت اتنی تھی کہ وہ براہ راست سب سے بڑے افسر کی نگرانی میں کام کرتی تھی کہ مبادا ہر کوئی اس سے کاپی کرلے اور وہ خراب ہوجائے‘ہم فیتے والے ٹیپ پر اپنی ریکارڈنگ کرتے تھے اور اس زمانے کے جدید ترین ہتھیار یعنی ٹیپ ریکارڈر پر آؤٹ ڈور ریکارڈنگ کرتے تھے ٹیپ ریکارڈر کی اتنی قدروقیمت تھی کہ کم لوگوں کے پاس یہ قیمتی چیز دیکھنے کو ملتی تھی‘میوزک کی دنیا میں انقلاب آگیا جب کیسٹ کا وجود ہوا‘ہمارے کچھ نامور گلوکار گھر بیٹھے بیٹھے پاکستان بھر کے لوگوں کی آنکھ کا تارا بن گئے کیوں کہ وہ ایک چھوٹے سے سٹوڈیو میں اپنے گانے کیسٹ میں بھرکے اسکی کاپیاں پھیلا دیتے تھے پھر بھی یہ کیسٹ مہنگی ہوتی تھی‘ریڈیو پاکستان بھی LPیعنی گول ریکارڈ یا ٹرن ٹیبل پر لانگ پلے سے نکل کر کیسٹ کی دنیا میں آگیا‘زندگی جیسے آسان ہوگئی اب لوگ پاکستان ٹیلی ویژن کے سحر سے نکل کر کیسٹ پر فلمیں اور نغمے گیت غزلیں سننے لگے‘ ہر گھر ہر پارک سے ٹیپ ریکارڈر پر نغمے ہرسو سنائی دینے لگے‘مشرق وسطیٰ کے ممالک سے آنے والے رشتہ داروں سے ٹیپ ریکارڈر کی فرمائش عام تھی جہازسے جو بھی شخص اترتا اس کے ہاتھ میں ٹیپ ریکارڈر ہوتا اور یہ مہنگا ترین تحفہ شمار کیاجاتا تھا‘مارکیٹ میں وی سی آر آنے کیساتھ ٹیپ ریکارڈر کا شہرہ کچھ کم ہوا لوگ گھر کے ایک کمرے میں جمع ہوکر اپنی پسند کی فلم لگا کر گھنٹوں تفریح کا لطف اٹھاتے‘کئی دکانیں صرف وی سی آر کے بڑے بڑے کیسٹ کرائے پر دینے کیلئے کھل گئیں وہ کیسٹ چل چل کر اتنے گھس جاتے تھے کہ بار بار دکاندار کے پاس ان کو واپس کرنے کیلئے لوگ جاتے تھے اور اس سے اچھا پرنٹ لے کر آتے تھے‘ایسے میں اصل اور نقل کاپیاں بڑی مشہور ہوئیں ان کا کرایہ بھی اسی حساب سے طے کیا جانے لگا‘ سی ڈی کی ایجاد نے گویا وی سی آر کو ایک ہی باؤنسر میں آؤٹ کردیا‘ڈی وی ڈی نے سی ڈی کو پیچھے چھوڑ دیا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھی ان نئی نئی ایجادات کا بے پناہ اثر ہوا اور جدید تکنیک کو فوراً اپنایا جاتا رہا‘ٹیلی فون صرف اداروں تک ہی مخصوص تھا یا امیر ترین گھروں کی زینت تھا اپنے گھر میں ٹیلی فون لگوانا کسی عام شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی تھی ٹیلی فون لگوانے کیلئے دو تین سال تک انتظار کرنا پڑتا تھا اس کیلئے وزیروں کی سفارشیں عام ہوتی تھیں ضروری ٹیلی فون کرنے کیلئے پی سی او بنے ہوتے تھے جن سے کال کرنے کیلئے قطاروں میں لوگ اپنی باری کا انتظار کرتے تھے یہ بہت زیادہ دور کا زمانہ نہیں ہے ہم میں سے ہزاروں لوگوں کو یہ وقت اب بھی ماضی قریب کا ہی لگتا ہوگا‘ٹیلی فون کے بل ادا نہ کرنے پر ٹیلی فون کاٹ دیا جاتا تھا‘خط لکھنے کا زمانہ تھا ایک خط ایک ہفتے میں پہنچتا تھا ڈاکیہ پسینے میں شرابور ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا تھا‘عید کے دن ڈھیروں عید کارڈ لے کر دروازے پر کتنی دیر تک کھڑا رہتا تھا‘ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ وقت کو پر لگ گئے ہیں وہ اڑنا شروع ہوگیا ہے اور اسی اڑان میں ایسی حیرت انگیزیاں بھی اس نے گھروں کے اندر باہر گرانا شروع کردی ہیں‘وقت اور فاصلے سمٹ کربے حد نزدیک آگئے ہیں سب دوڑ رہے ہیں کسی کے پاس ایک منٹ نہیں کہ تحمل سے کسی بات کو سن سکے۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کی عید اور سادہ سی یادیں
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
داستان ایک محل کی
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
محل سے کھنڈر بننے کی کہانی اور سر آغا خان
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
شہزادی درشہوار
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
پبلک مائن سٹیٹ آرکنساس امریکہ
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو