پنج شیر:افغانستان کی وادی پنج شیر میں طالبان اور احمد مسعود کی حامی فورسز کے درمیان قبضے کیلئے لڑائی تیز ہوگئی اور دونوں جانب سے ایک دوسرے کا بھاری جانی نقصان کرنے کے دعوے کیے گئے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ ہمارے جنگجوؤں نے پنج شیر میں داخل ہو کر متعدد علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
انہوں نے کہاکہ ہم نے مقامی سطح پر تعینات مسلح گروپ سے مذاکرات کے بعد کارروائی شروع کی تھی اور اس گروپ کو بھاری نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
دوسری جانب باغی گروپ افغان قومی مزاحمتی تحریک کے ترجمان نے کہا کہ تمام دروں اور داخلی راستوں پر ان کا قبضہ ہے اور وادی کے داخلی علاقے ضلع شوتل میں قبضے کی کوششوں کو ناکام بنایا گیا ہے۔
قریبی صوبے پروان کے علاقے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دشمن جبل السراج سے شوتل میں داخلے کی متعدد کوششیں کرتا رہا ہے لیکن ہر دفعہ ناکام ہوا ہے۔
انہوں نے کہاکہ افغان قومی مزاحمتی فورسز نے رواں ہفتے کے آغاز میں جب سے لڑائی شروع ہوئی ہے دو مقامات پر طالبان کے جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد کو نشانہ بنایا ہے۔
ترجمان نے طالبان کے نقصانات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ دوسرے فریق پر یہ واضح ہوگیا ہے کہ وہ جنگ کے ذریعے مسئلے کو حل نہیں کرسکتے ہیں،دونوں اطراف سے جانی نقصان کے مختلف اعداد وشمار پیش کیے جارہے ہیں تاہم کوئی ثبوت نہیں دیا جارہا ہے اور نہ ہی کسی طرف کے جنگجوؤں کی ہلاکتوں کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔
طالبان نے کہا کہ پنچ شیر وادی کا چار اطراف سے گھیراؤ کرلیا گیا ہے اور باغیوں کی کامیابی ناممکن ہے،باغیوں نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا ہے۔
پنجشیر کے مزاحمتی اتحاد کے سربراہ احمد مسعود کا کہنا ہے کہ مذاکرات کے حق میں ہیں تاہم طالبان کیساتھ مذاکرات میں کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے، طالبان کو تمام نسلی گروہوں پر مشتمل جامع حکومت کی صورت میں ہی تسلیم کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے طالبان تبدیل نہیں ہوئے ہیں، وہ اب بھی ملک میں برتری چاہتے ہیں، احمد مسعود نے کہا کہ کثیرالثقافتی ریاست پر طالبان کو ملک پر حکمرانی کی اجازت نہیں دی جاسکتی، اگر طالبان ایسا کریں گے تو مزاحمت کریں گے، طویل مدت تک مزاحمت جاری رکھنے کیلئے مددکی ضرورت ہوگی۔
انہوں نے کہاکہ طالبان نے حکومت کی کمزوری کی وجہ سے ملک پر کنٹرول حاصل کیا، سابق افغان صدر اشرف غنی نے طالبان سیلڑنا جاننے والی فوج کو ختم کر دیا، غنی اور حمد اللہ محب کی فوج کے فیصلہ سازی کے عمل میں مداخلت نے افواج کو کمزور کیا، یہ لوگ فوجی تربیت، تجربہ نہ ہونے کے باوجود جنگ سے متعلق حتمی فیصلے کرتے تھے۔