یکم نومبر سے وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کر دیا ہے، وزارت خزانہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ڈیڑھ روپے فی لٹر کمی کی گئی ہے، وزارت خزانہ کے مطابق مٹی کے تیل کی قیمت میں بھی ڈیڑھ روپے فی لٹر کمی کی گئی ہے جبکہ لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں ایک روپے فی لٹر کمی کی گئی ہے، نئی قیمتوں کا اطلاق یکم نومبر سے آئندہ 15روز کیلئے ہوگا۔دوسری جانب اوگرا نے ستمبر کیلئے ایل پی جی کی قیمت میں اضافہ کر دیا ہے۔جس سے ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر58روپے08پیسے مہنگا ہو گیا ہے۔ دریں اثنا فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 1روپے47پیسے فی یونٹ مہنگی ہونے کا امکان ہے۔حکومت کی جانب سے پٹرول کی قیمتوں میں بے شک معمولی ہی سہی کمی کا فیصلہ خوش آئند ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ایل پی جی کی قیمتوں میں ایک بار پھر بھاری اضافے اور بجلی کی قیمتوں کے بڑھ جانے کی خبر مہنگائی کے طوفان میں مزید شدت کا پتہ دیتی ہے۔ہم بار بار ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی میں کمی نہ ہونا حکومت کیلئے پریشانی کا سبب بن کر رہ جائے گا، اس لئے لازم ہے کہ ایک جانب ارباب حکومت تا دیبی کاروائی کا سلسلہ شروع کریں تو دوسری جانب اشیا ضرورت کی وافر فراہمی کو یقینی بنایا جائے، اس وقت ملک کی مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ انتظامی مشینری کا ذمہ داریوں سے انحراف ہے جبکہ مہنگائی میں کمی کی خاطر اگر مجسٹریسی نظام دوبارہ لانے کی ضرورت ہے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہئے۔ حکومت بار بار مجسٹریسی نظام لانے کا کہہ رہی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اب تک حکومت اس میں بری طرح نا کامیاب ہے، وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ ازخود نوٹس لیں اور اس امر کو یقینی بنانے کی کوشش کریں کہ عوام کو ریلیف دیا جا سکے حالانکہ دنیا میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے حوالے سے مختلف پالیسیاں نافذ ہیں۔ ملائشیا جیسے ممالک تیل درآمد کرتے ہیں۔ پھر تیل پر سبسڈی دے کر عوام کو کم نرخوں پر فراہم کرتے ہیں۔ اس کا اثر وہاں کی معیشت پر بہت اچھا رہا ہے۔ ملائشیا میں سیاحت کا شعبہ ہر سال کروڑوں مہمانوں کی خاطر داری کرتا ہے۔ یہ سیاح مقامی ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں۔ سبسڈائز تیل کی وجہ سے پبلک ٹرانسپورٹ جہازوں ریلوں اور کاروں کے کرائے خاصے کم ہیں۔ کرائے کم ہونے پر سیاح اور مقامی افراد کم خرچ پر ایک علاقے سے دوسرے علاقے کو جا سکتے ہیں۔ یہ کسی ملک کے معاشی ماڈل پر منحصرہے کہ وہاں تیل کی قیمتوں کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ تیل استعمال کرنے والے ممالک بند پڑے ہیں۔ چین میں جزوی کام جاری ہے۔ پاکستان کی وزارت خزانہ کا خیال ہے کہ معاشی بحران کے باعث کاروباری سرگرمیاں کم ہونے سے حکومت کے لئے یہ ممکن نہیں ہو گا کہ وہ ٹیکس اہداف حاصل کر سکے۔ ان حالات میں تیل کی قیمتوں میں کمی کی گنجائش پوری طرح عوام کو منتقل نہیں کی جا رہی۔ یقینا ملکی معیشت پر قرضوں کا بوجھ اس قدر بھاری نہ ہوتا تو حکومت کیلئے پٹرولیم مصنوعات کے نرخ مزید کم کرنا ممکن ہو سکتا تھا۔ حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کرنے کے بعد ان سرکاری اداروں کو فوری طور پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے جو پبلک اور گڈز ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی اور اس کمی پر عملدرآمد کے ذمہ دار ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کے حالیہ فیصلوں کے بعد یہ مطالبہ بے جا نہ ہو گا کہ بجلی کے یونٹ کے نرخوں میں بھی کمی کا اعلان کیا جائے۔پاکستان جن معاشی مشکلات کا شکار ہے وہاں حکومت سے بہت زیادہ مالی مراعات کا تقاضا ممکن نہیں تاہم جو فیصلے سوچ بچار کے بعد کئے جا رہے ہیں ان پر عملدرآمد میں کوتاہی دکھائی دے تو قیمتوں میں کمی کا مقصد ختم ہو جاتا ہے حکومت اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا براہ راست فائدہ عوام کو پہنچناچاہتی ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ٹرانسپورٹرز سے کرائے کم کر وائے تاکہ عملی طور پر عام آدمی کے روزمرہ اخراجات میں کمی واقع ہو۔ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے توانائی کی قیمتوں میں توازن اور تسلسل انتہائی ضروری ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ملکوں کی معیشت کیلئے توانائی کی قیمتوں میں ردوبدل جلد نہیں ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے ملکوں میں تیل کی قیمتیں سالانہ میزانیے میں طے کی جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک برس تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں یکساں رہتی ہیں۔ اس طریقے سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں کو متعین کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ یوں ملکی معیشت یکساں رفتار سے آگے بڑھتی ہے۔