گزری صدیوں میں دنیا والے کتنے سنگ دل اور بے رحم تھے تاریخ کے صفحا ت میں ان بے رحم کہانیوں کی بھر مار ہے کوئی حساس دل ان لفظوں کے ظلم و ستم تو بھی برداشت نہیں کرسکتا کجا کہ وہ مظلوم لوگ جن پر یہ درد اور دکھ گزر گیا اور وہ موت کی وادیوں میں جا سوئے‘ بیسوی صدی کے اوائل میں افریقہ کے وہ کالے حبشی جو امریکہ روزگار کیلئے آ چکے تھے امریکہ کے گوروں نے ان پر جو ظلم کیا وہ ناقابل بیان ہے اگرچہ ان کی اولادیں جو اب امریکہ‘ کینیڈا اور یورپ کے علاقوں میں آزادی کی زندگیاں گزار رہی ہیں اور اس بات سے قطعاً بے پرواہ ہیں کہ ان آباؤ اجداد نے دکھوں کے کون کون سے رنگ دیکھے تھے وہ ان کی ہی قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی آزاد زندگی کو ایسے انجوائے کر رہے ہیں کہ کہیں سے نہیں لگتا کہ یہ انہی کی اولادیں ہیں جن کے دکھوں کے وزن پہاڑوں جتنے ہیں۔ بلیک فرائڈے جس میں دوکانوں کی لوٹ سیل میں سب سے زیادہ کالے پیش پیش ہوتے ہیں اسی بلیک فرائڈے کو ان کے اباؤ اجداد کو بولی لگا کر بیچا جاتا تھا ایک خاندان ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر مختلف گوری فیملیوں کے گھروں میں غلام بنا دئیے جاتے تھے جس پربلیک فرائڈے کو افسوس اور دکھ کے ساتھ منایا جانا چاہئے وہ تاجروں کی کمائی کا سبب بن گیا ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ بزرگ قربانیاں دیتے ہیں اور آنے والی نسلیں ان کی قربانیوں کو یکسر بھول کر عشرت کے جھولے جھولتی ہیں‘ میں خود کبھی برصغیر کی تقسیم اور جدوجہد کے بارے میں پڑھتی ہوں‘ جو اتنی درد ناک اور خاندانوں کے قتل و غارت اور لوٹ مار کے واقعات سے بھری پڑی ہے تو سوچتی ہوں کہ ابھی صرف74 سال ہو ئے ہیں اور ہم سب بھول گئے ہیں قصہ خوانی بازار کا قتل عام‘ کوہاٹ‘ ملتان کا قتل عام‘ ہمارے پیارے آباؤا اجداد کی زندگیوں کے المناک پہلو‘ جیلو ں میں ان کاسالہا سال قید بند میں رہنا۔ان دنوں تو کوئی امید کوئی جھونکا ہوا کا، جس کا دور دور تک بھی گزر نہ تھا۔کیسے بلند ہمت لوگ تھے وہ یہ قربانیاں دیتے دیتے مٹی میں جا سوئے ‘ہم کبھی ان کا ذکر نہیں کرتے ان کو یاد نہیں کرتے ان کی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہیں برصغیر کے عظیم قائدین کا ذکر کرو تو ہمیں کوئی عام بات لگتی ہے۔ امریکہ میں رہنے والے کالوں نے برصغیر میں رہنے والوں سے بھی زیادہ دکھ سہے اور کینیڈا کی ہی سرزمین اس وقت کی دنیا میں واحد زمین تھی جس کی طرف وہ مہینوں خوف و خطر کے عالم میں ننگے پاؤں چلتے رہتے تھے کہ یہاں ہمیں پناہ ملے گی اور ہماری فروخت کا کوئی سامان نہیں کریگا‘ دل چاہتا ہے کہ آپ کو ایسی کئی کہانیاں بیان کروں جو انہیں علاقوں کی ہیں اور ان کے اس اندونہاک سفر کی ہیں جو وہ امریکہ کے دور دراز علاقوں سے کن حالات میں ظلم و ستم کے چنگل سے بھاگتے ہیں اور ایک خفیہ نیٹ ورک کے ذریعیسے پناہ لینے کیلئے کینیڈا کی سرزمین پر پہنچتے ہیں آج کی یہ پہلی کہانی اس لحاظ سے کچھ حد تک درد سے مبرا ہے کہ جو ایک کالا حبشی ایک امریکن گورے کے ساتھ نارتھ کیرولینا سے انڈیا نا کا سفر کرتا ہے وہ ایک فارم کا مالک بھی ہے اور پیسے کے لحاظ سے امیر ہے وہ صرف اپنے گورے ہمسائے کو اپنی کمپنی یا ساتھ دینے کیلئے اور راستے میں اس کی مددکرنے کیلئے ساتھ ہو لیتا ہے جس کیلئے اس کا گورا انگریز ہمسایہ اس کا شکر گزار ہوتا ہے وہ گھوڑا گاڑی پر سفر کرتے کرتے ایک ویران سے ریسٹورنٹ میں پہنچتے ہیں گھوڑوں کو کھولا جاتا ہے میلوں کا سفر طے کرکے جانورں بھی تھک چکے ہوتے ہیں اور خود ریستوران میں کھانا کھانے کیلئے آرڈر کرتے ہیں انگریز یہ دیکھ کر تعجب کا اظہار کرتا ہے کہ کھانے کی میز پر ایک پلیٹ ایک چمچ اور کانٹا ہے وہ ویٹر کو بلا کر ا س کا سبب پوچھتا ہے وہ صاف صاف بتاتا ہے کہ ہمارے ریستوران میں کالوں کا داخلہ منع ہے اگر آپ کے نوکر نے کھانا کھانا ہے تو ہمارے کچن کے فرش پر بیٹھ کر علیحدہ پلیٹ میں کھا سکتا ہے انگریزاس کو سمجھاتا ہے کہ دیکھیں یہ میرا نوکر نہیں ہے یہ میرا ہمسایہ ہے۔ مجھ سے زیادہ پیسے والا ہے اس کا اپنا فارم ہے ہم دوست ہیں ویٹر انکار کردیتا ہے ان دنوں پورے امریکہ میں کالے او ر گوروں کے سکول‘ ریستوران‘ واش روم ہسپتال گلیاں محلے الگ ہوتے تھے وہ صرف غلام تھے اور بس قابل ظلم وستم تھے انگریز مجبور ہو جاتا ہے اس کا کا لا دوست ریستوران کے فرش پر بیٹھ کر کھانا کھانے کی حامی بھر لیتا ہے اور یوں دونوں وہاں سے چل پڑتے ہیں انگریز کے پاس سفر میں کچھ نایا ب گھوڑے بھی ہوتے ہیں جو وہ بیچنا چاہتا ہے اور یہ سفر اسی وجہ سے اس نے اختیار کیا ہوتا ہے یہ رحم دل انگریز‘ انگریزوں کے اس گروپ سے تعلق رکھتا ہے جنہوں نے ایک ایسا خفیہ نیٹ ورک بنایا ہوا تھا جو ان کالے ستم زدہ غلاموں کی مدد کرتے تھے جو بے یار و مدد گار تھے ان کو پیسے دیتے تھے اور کھانا کپڑا پناہ دیکر کینیڈا کے بارڈر تک چھوڑنے میں مددکرتے تھے قدرت کا قانون ہے جہاں برائی ہوتی ہے وہی اچھائی بھی موجود ہوتی ہے انگریزوں کے اس درد دل رکھنے والے انسانوں نے لاکھوں لوگوں کی جان بچائی اور ان کو اس درد ناک ماحول سے نکال کر رہائی دلائی وہ اپنے نایاب گھوڑوں اور اپنے کالے حبشی دوست کے ساتھ ایک ایسی منڈی میں پہنچا جہاں گھوڑے خریدنے اور بیچنے کا کاروبار ہو رہا تھا لیکن اس کی امیدوں کے مطابق وہاں کالے حبشی غلام گھرانے بھی سیل کیلئے موجود تھے وہ اس آکشن بولی میں سب سے آخر میں کھڑا ہو کر یہ درد ناک منظر دیکھنے لگا۔اس کا دل یہ دیکھ کر بہت زیادہ دکھا‘ اب آکشن شروع ہوا غلام کی صفات یوں بیان ہونے لگیں مضبوط جسم‘ مضبوط دانت عمر 25 سال‘7 فٹ ہر قسم کا کام کر سکتا ہے شدید ترین مار برداشت کر سکتا ہے اور پھر بولیاں بڑھ چڑھ کر لگنے لگیں آخر وہ ایک بڑی بولی کے عوض بک گیا اس کا سر جھکا ہوا تھا رنگ زرد تھا اپنی ذلت اور رسوائی پر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا دوسرے نمبر پرایک عورت جوان ایک سال کا بچہ اس کی گود میں‘ صفات بیان ہوئیں گھر کا کاج جانتی ہے جانورں کی دیکھ بھال‘ برداشت صبر‘ کھانا کم کھاتی ہے۔ ایک انگریز نے بھاری بولی کے عوض اس کو خرید لیا اس کے ہاتھ سے اس بچہ چھین لیا گیا‘بچہ رویا کر لایا لیکن مالک نے بچے کے بغیرعورت خریدنے پر زور دیا وہ خود بھی اپنے بچے کیلئے چیخ رہی تھی اور پھر یہ سب کچھ اس رحم دل انگریز سے نہ دیکھاگیا اس نے اپنے گھوڑوں کو فروخت کئے بغیر ہی واپسی کا سفر اختیار کیا وہ لکھتا ہے کہ مہینوں تک اس بچے اور عوت کے چیخنے کی آوازیں میرے کانوں میں گونجتی تھیں او ر پھر میں نے عزم کیا کہ میں اپنے اس خفیہ نیٹ ورک کے فلاحی کاموں اور پناہ دینے کے کاموں کو زیادہ جوش اور جذبے سے چلاؤں گا‘ اور یہ کہانی کوئی دور کی بات نہیں بیسویں صدی کی کہانی ہے‘ آج اکیسویں صدی میں گو بہت سی اقوام کو آزادی نصیب ہو گئی ہے لیکن آج بھی ہم اپنے ہی انسانوں کا برا سوچنے میں ایک پل نہیں لگاتے نہ جانے ہمارے کیے ہوئے فلاحی کام دوسروں کی زندگیوں کو کس طرح تبدیل کر دیتے ہیں‘ قربانی دینے والوں کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے جنہوں نے دوسروں کی خوشیوں اور سکھ کیلئے اپنی زندگیوں میں درد و غم بسائے رکھا۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کی عید اور سادہ سی یادیں
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
داستان ایک محل کی
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
محل سے کھنڈر بننے کی کہانی اور سر آغا خان
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
شہزادی درشہوار
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
پبلک مائن سٹیٹ آرکنساس امریکہ
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو