سالانہ 3،000 سے زائد شکار کرنے والی بلی

صرف 8 سے 10 انچ جسامت کے باوجود ’سیاہ پیروں والی افریقی بلی‘ دنیا کے خطرناک ترین شکاری جانوروں میں شمار ہوتی ہے۔ (تصاویر: متفرق ویب سائٹس)

بوٹسوانا: اوپر کی تصویر میں معصوم اور من موہنی دکھائی دینے والی یہ بلی دنیا کے سب سے خطرناک شکاری جانوروں میں شمار ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک سال میں تین ہزار سے زیادہ جانوروں کا شکار کرتی ہے۔

افریقہ کے صرف تین ملکوں (بوٹسوانا، نمیبیا اور جنوبی افریقہ) میں پائی جانے والی اس بلی کو ’’سیاہ پیروں والی افریقی بلی‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ اس کا سائنسی نام ’’فیلس نیگریپیس‘‘ (Felis nigripes) ہے۔

اس کی جسامت صرف 8 سے 10 انچ تک ہوتی ہے اور یہ عام طور پر ایسے جنگلات میں رہنا پسند کرتی ہے جہاں پرندے اور کتر کر کھانے والے چھوٹے جانور (روڈنٹس/ خزندے) بڑی تعداد میں ہوتے ہیں۔

دوسرے کئی چھوٹے جانوروں کی طرح یہ بھی دن میں سوتی ہے اور رات کو جاگتی رہتی ہے۔

اپنی مختصر جسامت کے باوجود، یہ افریقی بلی شکار کے معاملے میں شیر اور چیتے سے بھی زیادہ ماہر ہے جس کا حملہ 60 فیصد تک کامیاب رہتا ہے۔ اس کے مقابلے میں شیر کے حملے 20 سے 25 فیصد تک ہی کامیاب ہوتے ہیں۔

جنگلی حیات (وائلڈ لائف) کے عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ یہ بلی ایک رات میں اوسطاً 10 سے 14 چھوٹے جانوروں یا پرندوں کا بہ آسانی شکار کرلیتی ہے۔ البتہ یہ انسان پر حملہ آور نہیں ہوتی۔

سیاہ پیروں والی افریقی بلی اتنا زیادہ شکار کیوں کرتی ہے؟

اس کے جواب میں ماہرین کہتے ہیں کہ اس میں ہاضمے کا نظام غیرمعمولی طور پر مؤثر اور تیز رفتار ہے جس کی وجہ سے یہ جو کچھ بھی کھاتی ہے، وہ تھوڑی دیر ہی میں ہضم ہوجاتا ہے؛ اور اسے بھوک محسوس ہونے لگتی ہے۔

لہٰذا، اپنی ہر وقت کی بھوک مٹانے کےلیے یہ لگ بھگ پوری رات ہی شکار میں گزار دیتی ہے۔

 

اپنے بہترین اور قدرتی ’’نائٹ وژن‘‘ کی بدولت، یہ گھپ اندھیرے میں بھی اپنا شکار دیکھ لیتی ہے اور اس پر تیزی سے جھپٹ پڑتی ہے۔

مسلسل بڑھتی ہوئی انسانی سرگرمیوں نے جہاں دوسرے جانوروں اور ان کے قدرتی مساکن (Habitats) کو تباہ کیا ہے، وہاں اس ننھی سی افریقی بلی کا زندہ رہنا بھی مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے۔

 

جنگلات کے قدرتی مساکن متاثر ہونے کی وجہ سے اب اس بلی کےلیے بھی شکار بہت کم رہ گیا ہے۔ نتیجتاً اس کی تعداد بھی بہت کم رہ گئی ہے اور کئی دوسرے جنگلی جانوروں کی طرح سیاہ پیروں والی افریقی بلی بھی مکمل خاتمے کے بالکل قریب پہنچ چکی ہے۔