افغانستان پر طالبان کو واضح برتری حاصل کیے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزرچکا ہے۔اس دوران حکومت کے قیام کے بار بار اشارے ملنے کے باجود باقاعدہ اعلان میں تاخیر ہو رہی تھی گزشتہ دنوں افغانستان میں نئی حکومت کی تشکیل کا اعلان کر دیا گیاتھا، افغانستان کی عبوری حکومت کااعلان ایک اہم پیش رفت ہے اس اعلان کا کئی ہفتوں سے انتظار کیا جا رہا تھا اگرچہ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے واضح کیا ہے کہ یہ حکومت وقتی ہے مگر نئی حکومت کے قیام سے بہت سی چہ میگوئیوں کا خاتمہ ہو جائے گا اور بطور ریاست افغانستان کی نئی شناخت واضح ہو سکے گی۔یہ امر واضح ہے کہ ایک ایسی ریاست کہ جس میں کوئی باقاعدہ حکومتی ڈھانچہ نہ ہو، اس کے ساتھ کوئی دوسرا ملک کیسے معاملات کا آغاز کر سکتا ہے، جبکہ داخلی سطح پر یہی خلا بے یقینی میں اضافے کا سبب بھی بن رہا تھا، تاہم اب نئی حکومت کے اعلان سے افغانستان کی صورتحال میں اطمینان بخش تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔افغانستان میں عبوری حکومت کے اعلان کے بعد خطے کے ممالک نے عبوری حکومت سے افغانستان میں ترقی کیلئے ہر ممکن تعاون کا وعدہ کیا ہے۔ چین نے افغانستان کی ترقی کیلئے تین کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے جبکہ پاکستان نے فوری طور پر خوراک اور ادویات بھجوانے کااعلان کیا۔پاکستان کی جانب سے آٹا، گھی اور ادویات کی بھاری مقدار سی130طیارے کے ذریعے کابل پہنچا دی گئی ہے جبکہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ پاکستانی کرنسی میں تجارت کی سہولت دی ہے جوافغان عبوری حکومت کیلئے یہ ایک بڑی تجارت سہولت ثابت ہو رہی ہے۔چنانچہ ضروری ہے کہ افغانستان کے ساتھ عوامی سطح پر مضبوط رابطے قائم کیے جائیں۔ہماری حکومتوں اور افغانستان کی عبوری انتظامیہ کے تعلقات کی نوعیت واضح ہے مگر عوامی سطح پر بھی خیر سگالی کے جذبات کا وسیع تر اظہار ضروری ہے۔ افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک اس مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کھلے دل سے دست تعاون بڑھائیں۔افغان معاملے پر پاکستان کی جانب سے پڑوسی ممالک کے ساتھ بات چیت کا حالیہ سلسلہ خوش آئند ہے۔اس پس منظر میں پاکستان کی میز بانی میں پہلے چین، ایران، ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان کے خصوصی نمائندوں کا اجلاس ہوا، بعد از اں انہی ممالک کے وزرائے خارجہ کا ور چوئل اجلاس بھی منعقد ہوا، جس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا تھا کہ افغانستان کے بدلتے حالات ایک کھلی حقیقت ہے، ان حالات کے ہمسایہ ممالک پر گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔یہ امر باعث اطمینان ہے کہ اس بار افغانستان میں ہونے والی تبدیلی کسی خون خرابے اور مہاجرین کے سیلاب کے بغیر ہوئی ہے مگر مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا، اب بھی صورت حال پیچیدہ اور غیر تسلی بخش ہے، اس لئے ہماری توجہ کا محور افغانستان میں ترقی کے ساتھ ساتھ قیام امن ہونا چاہئے کیونکہ افغانستان کے استحکام کا ہمسایہ ممالک کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یہ امر بھی باعث اطمینان ہے کہ افغانستان میں حالیہ سیاسی تبدیلی کے دوران کسی بھی ہمسایہ ملک کی طرف سے مداخلت نہیں کی گئی۔ماضی میں ایسی غلطیوں کے نتائج انتہائی بھیانک صورت میں سامنے آئے جس کے نتیجے میں ایک طویل مدت تک افغانستان اور یہ خطہ مسائل کے بھنور سے نہیں نکل سکا۔نئے حالات نے جو امکانات پیدا کیے ہیں، ان میں سبھی ممالک کو احساس کرنا چاہئے کہ اپنی پسند نا پسندکے بجائے افغان عوام کے فیصلوں کا احترام کریں اور خود کو نئے افغانستان کے پر عزم اور مخلص علاقائی شراکت دار کے طور پر سامنے لائیں۔ جتنا افغانستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت سے دوررکھنا ضروری ہے اتنا ہی یہ بھی کہ تجارتی، اقتصادی اور انسانی فلاح وبہبود کے شعبوں میں افغانستان کے ساتھ تعاون کیا جائے۔تعاون کا مقصد محض یہ ہونا چاہئے کہ اس پسماندہ ملک کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنا ہے۔ علاقائی ممالک کی ذمہ داری اس لئے بھی زیادہ ہے کہ عدم استحکام کا شکار افغانستان عالمی اور علاقائی دہشت گردی کا ٹھکانہ بن سکتا ہے۔اس حوالے سے مغربی حکومتوں اور عالمی عسکری ماہرین کے تجزیے اور تبصرے چونکا دینے والے ہیں۔افغانستان میں پہلے ہی ایک بے مقصد جنگ دو عشروں تک جاری رہی جس کے خطے کے ممالک پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے، مستقبل میں عدم انتشار کی اس کہانی کو دہرائے جانے سے روکنا ہوگا۔ اس کام کی ابتدا افغانستان کی مستحکم معیشت اور خوش حالی کی جانب مخلصانہ انداز میں قدم بڑھانے سے ہی ممکن ہے۔ علاقائی ممالک کو اس جامع مقصد کیلئے پر عزم ہو کر کام کرنا ہوگا۔ افغان عبوری حکومت کو اس سلسلے میں بہر طور اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کا جغرافیہ اور معدنی وسائل کی وقعت اتنی ہے کہ ان پر انحصار کر کے افغانستان ایک مضبوط اور مستحکم معاشی طاقت بن سکتا ہے مگر اس کام کیلئے افغانستان میں مستقل امن چاہئے اور قیام امن کا تقاضا یہ ہے کہ معاشرے میں اس قدر بھر پور خوشحالی ہوتا کہ افغان عوام کے مفادات اور ترجیحات بلند ہوں۔اس صورت حال میں اگلا قدم افغانستان میں ایسی جامع حکومت کے قیام کا ہونا چاہئے جس میں طالبان کی جانب سے وعدوں کی پاس داری واضح نظر آئے۔ سماجی امن اور دنیا کے ساتھ مل کر چلنا افغانستان کیلئے ناگزیر ہے۔ یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس پر طالبان کو توجہ دینا ہوگی اور عالمی برادری کو افغانستان کا مستقبل تابناک بنانے کیلئے ان کی ہر ممکن مدد کرنا ہوگی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس دوران امن دشمن طاقتوں کی ریشہ دوانیاں جاری رہ سکتی ہیں، لیکن ان ریشہ دوانیوں کو خلوص نیت اور عزم صمیم سے ختم کیا جا سکتا ہے۔