کینیڈین امیگریشن پالیسی 

2005 میں کینیڈا کے امیگریشن کے وزیر نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ سال کے آخر تک ہمارے تمام کارخانے تعلیم یافتہ مزدوروں سے بھر جائینگے اگر ان کے بیان کا جائزہ لیا جائے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ پوری دنیا کے خراب معاشی اور سیاسی حالات سے تنگ آکر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور امیر ترین بزنس کرنے والے لوگ اپنے اور اپنے خاندان کی بہترین طرز زندگی کی خواہش  رکھتے ہوئے جس طرح کینیڈا اور امریکہ کی امیگریشن حاصل کرتے ہیں امیگریشن کے منسٹر کا یہ بیان اس تناظر میں درست ہے۔ ان ممالک میں پہنچ کر ان انجینئرز‘ ڈاکٹرز‘ سائنسدان اور بہترین دماغوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے ان کی افسوسناک کہانیاں بھی اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے ملک کی حاصل کی ہوئی  ڈگریاں جن کے باعث امیگریشن ممکن ہوئی ہوتی ہے اور گاڑی چلانے کا وہ اختیار جو زندگی کے تگ ودو سے نپٹنے کیلئے ضروری ہوتا ہے وہ بھی یہاں پہنچ کر یکسر چھن جاتا ہے اور اس اختیار کو حاصل کرنے کیلئے کئی بار ناکامیوں کا سامنا کروایا جاتا ہے۔ آج کینیڈا کے امیگریشن منسٹر پھر سے اہم اعلانات کر رہے ہیں کہ امیگریشن کے عمل کو پوری دنیا سے زیادہ اور تیز تر کیا جارہا ہے حکومت کا ارادہ ہے کہ وہ 2023ء تک امیگرنٹس کی تعداد2لاکھ پچاس ہزار سے بڑھا کر ہرسال چار لاکھ پچاس ہزار کر دے جس میں زیادہ تر تعداد دنیا کے امیر ترین تجارت پیشہ لوگوں کی ہوگی۔اس کے بعد اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان اور پھر وہ انٹرنیشنل طالب علم جو یہاں آکر یونیورسٹی کی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں یہاں کے طرز زندگی کو سمجھ جاتے ہیں اور سب سے بڑھ جوان خون ہوتے ہیں توانائی اور طاقت سے بھرپور‘ ان کو واپس بھجوا دینا شاید عقل مندی کے زمرے میں نہیں آتا یہ الگ بات کہ وہ  ماں باپ کی کن جان جوکھوں کی کمائی سے اس ملک میں ایک اعلیٰ مقصد لے کر پہنچے کہ واپس جاکر اپنے والدین کو یہ قرض خدمت کی صورت میں چکائیں گے بہنوں کے ہاتھ پیلے کرینگے اور شاید وطن کی خدمت کرینگے۔ امیگریشن کی لالچ انکے قدموں میں بیڑیاں ڈالے گی اور پھر وہ  اپنے خاندان یعنی بیوی بچوں کو یہاں سپانسر کر سکیں اور ماں باپ کے حصے میں بھی سپرویڈا کے نام پر ایک کاغذ ملے گا کہ آؤ‘ کچھ وقت بسر کرو اور واپس جاؤ‘ 2002ء میں میں ایڈمنٹن میں تھی وہاں کے ایک لیڈنگ اخبار میں میں نے ایک ایڈیٹر کے نام ایک ای میل پڑھی تھی جو آج تک میرے ذہن کے نقش میں محفوظ ہے ایک کینیڈین نے لکھا تھا رات کو میں سوگیا اور جب میں صبح سو کر اٹھا تو میں نے دیکھا کہ میرے گھر میں کچھ لوگ بیٹھے ہیں اور دعویٰ سے کہتے ہیں کہ یہ ہمارا گھر ہے لیکن یہ گھر تو میرا ہے میرے باپ دادا کا گھر ہے یہ گھر ان کا کیسے ہو سکتا ہے دراصل یہ امیگرنٹس ہیں جو میرے ملک کو اپنا ملک اور یہاں کا شہری ہونے کا دعویٰ کر بیٹھے ہیں“ اس ای میل کو پڑھ کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ کینیڈا کے عوام اور کینیڈین حکومت کی پالیسیاں بالکل وایسی ہی ہیں جیسے عام طور پر پوری دنیا کے عوام کچھ اور سوچتے سمجھتے ہیں اور حکومتیں اپنی طرز کے مطابق اپنے مفادات کے مطابق رولز ریگولیشن ترتیب دیتی ہیں۔2016ء میں جب منسٹر امیگریشن نے اپنی حکومت کی امیگریشن  پالیسی کا اعلان کیا تو سی بی سی نیوز کی ویب سائٹ پر بہت ہی دلچسپ تبصرے اور ای میلز دیکھنے کو ملیں جو یہاں کے عوام کے دلوں کا بیان ہے یہ واضح کردوں کہ سی بی سی نیوز کینیڈا کا بہت بڑا ٹیلی ویژن نیٹ ورک ہے دل چاہتا ہے کہ آپ کو بھی ان تبصروں میں شریک کروں جو نہ صرف امیگرنٹس جس میں ہم وطن بھی شامل ہیں ان کے بھی دکھ درد پوشیدہ ہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک کی عوام کے ذہن و دل کی جنگ بھی پوشیدہ ہے اپنی اک ای میل میں کیتھرین ایلن لکھتی ہیں۔”پلیز مجھے بتایا جائے کہ ہم باہر سے ٹیلنٹ کیوں منگوا رہے ہیں‘ میں ایک نوجوان کو جانتی ہوں جس نے حال ہی میں انجینئرنگ کی ڈگری(کینیڈا کی یونیورسٹی)  حاصل کی ہے وہ آج تک اپنے لئے کام نہیں ڈھونڈ سکا ہے جہاں بھی اس نے اپلائی کیا جواب ملا سوری‘ ہم ڈاؤن سائزنگ کر رہے ہیں‘ اس نے قرضہ لے کر پڑھا ہے اور اب تک وہ کوئی جاب حاصل نہیں کرپایا ہے وہ دوبارہ سے کچھ پڑھنے یونیورسٹی چلاگیا ہے“ جم برشن لکھتا ہے‘ وال مارٹ‘ میکڈانلڈ سیون الیون کے سوا کہیں نوکری ہے بلیک شیڈون لکھتا ہے‘ پلیز پبلک اوپینئن آج کی تاریخ میں بہت کاؤنٹ کرتا ہے8% کینیڈین امیگریشن کو سپورٹ کرتے ہیں Joan لکھتی ہے کہ کچھ ہفتے پہلے ایک پول ہوا جس میں 68% کینیڈین امیگریشن کے خلاف ہیں میں نے ایک آرٹیکل پڑھا جس میں امیگریشن منسٹر اس پول پر حیران ہوئے ہیں ان کے خیال میں لوگ متعصب ہیں اور یہ سب حرجے کلنٹن نے ٹرمپ کے خلاف بھی استعمال کئے۔Dennis Lefebwse لکھتے ہیں‘ کہتے ہیں کہ ہم امیگریشن کے خلاف نہیں ہیں کہ ان کا کیا بنے گا جو کینیڈین ہیں میں سوچ سکتا ہوں ان کے بارے میں جو بے گھر ہیں بے روزگار ہیں‘ بوڑھے ہیں‘ ویٹران ہیں اور فسٹ پنشن کے لوگ ہیں ہم ان کا خیال نہیں رکھ رہے ہیں جوموجود ہیں اور جو نہیں ہیں ان کو اس لئے لا رہے ہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ ٹیکس جمع کریں بہت خوب‘ اگر آنے والے روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو آپ کو ٹیکس دے دینگے۔David James لکھتے  ہیں تو آپ کے پاس تمام بے روزگاروں کیلےء نوکریاں موجود ہیں‘ Steve Duncanلکھتے ہیں 2029ء تک کینیڈا پہچاننے کے قابل نہیں رہے گا‘ کینیڈا کی اک سیاسی جماعت این ڈی بی کی امیگریشن پالیسی کی حمایت کے خلافTerry Kubin لکھتے ہیں‘ یہ ہر سال پانچ لاکھ امیگرنٹس چاہتے ہیں اسلئے وہ کبھی الیکشن نہیں جیت سکے۔David James لکھتے ہیں‘ بے روزگاری اور جرائم یہ ہمارا مستقبل ہے مجھے لگتا ہے یہ سب غربت دیکھنا چاہتے ہیں‘ Russ لبرلز کی حمایت میں لکھتے ہیں کہ کیا آپ نیوز نہیں دیکھتے لبرل ہر مہینے کتنا خرچ کرتے ہیں اور وہ اپنے وعدے کس طرح پورے کر رہے ہیں ٹورانٹو یونیورسٹی کی ایک پروفیسر لکھتی ہے کہ امیگریشن کی پالیسی ہمارے ملک میں سکل ورکرز کے تقاضے تو پورے کریگی لیکن حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ آنے والے خاندان معاشی نقصانات کاسامنا نہ کریں۔