ہم لو گوں کو سوشل ہو نا اچھا لگتا ہے ٹیکنا لو جی سے ہمیں پیار ہے لیکن سو شل ٹیکنا لو جی سے ہم کو ڈر لگتا ہے ہزار بار کوئی کہہ دے آپ نے گھبرا نا نہیں مگر ہم گھبرا جا تے ہیں نا قا بل بر داشت گھبراہٹ کا شکار ہوتے ہیں ہما رے ایک قریبی دوست کہتے ہیں مغل اعظم جلا ل الدین اکبر خوش قسمت تھے ان کے دور میں فوٹو شاپ کی ٹیکنالوجی نہیں تھی مغل با د شاہ شا ہجہان بھی خو ش نصیب تھے‘ اگر یہ معا ملا ت اُس وقت ہو تے تو وہ نہ تا ج محل بنا تے نہ شا ہجہان آبادکو آباد کرتے نہ خو بصورت مسا جد اور با غات تعمیر کر تے قدم قدم پر قواعد و ضوابط اُس کا دا من پکڑ لیتے اُس کا ہاتھ تھام لیتے اور اس کو کا م سے روک دیتے۔اگر مغل اعظم کے دور میں سوشل میڈیا ہوتا سو شل ٹیکنا لوجی ہو تی فو ٹو شاپ کے چونچلے ہوتے تو جلا ل الدین اکبر کے ہاتھ پاؤں بند ھے ہوئے ہوتے وہ نہ مر ہٹوں کے خلا ف فوج کشی کر نے کی ہمت کرتا نہ کا بل سے بنگا ل تک اپنی سلطنت کے طول و عرض میں جا سو سی کا جا ل بچھا کر مخالفوں کو تہہ و تیغ کر تا۔وہ تو قدم قدم پر آگے پیچھے، دائیں با ئیں، اوپر نیچے دیکھتا رہ جا تا کہ کہیں خفیہ کیمرہ میری حر کتوں کی عکس بندی تو نہیں کر رہا وہ انا رکلی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرا ت نہ کر تا کہ کہیں انسا نی حقوق والے مجھے دھر نہ لیں‘ ہمارے دوست باد شاہ خصلت آدمی ہیں ان کی سوچ بھی بادشاہوں والی ہے ہم خا ک بسر خا ک نشین باد شا ہوں کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ہماری سوچ بہت بلند پرواز کرے تو بیربل‘ملا دو پیا زہ‘ راجہ ٹوڈر مل اور خانخانان تک جا تی ہے آگے اس کے پر جل جا تے ہیں ہم کس قدر ظا لم سما ج میں رہتے ہیں جہاں ہر وقت، ہر آن ہماری حر کتوں کو تصویروں میں محفوظ کر کے دوستوں میں تقسیم کیا جا تا ہے اور چشم زدن میں لاکھوں صارفین ہماری تصویروں کو دیکھتے ہیں اگر ملا دو پیازہ کے زما نے میں فیس بک اور ٹو ئیٹر کی سہو لت ہوتی تو اُسے بیر بل کو لاجواب کر نے کیلئے باد شاہ کے دربار میں حاضری کی ضرورت نہ پڑتی۔وہ فیس بک پر پوسٹ لگا تا اور بیربل کمنٹ میں اس کا جواب دے دیتا۔راجہ ٹو ڈرمَل پٹوارخانے سے ٹویٹ کرتا کہ آج زمینوں کی پیمائش مکمل ہو ئی‘ ادھر خان خا نا ن ٹویٹ کے جواب میں ٹو ئٹر پر ہی حکم دیتا کہ لگا ن وصول کر کے مغل اعظم کے خزا نے میں جمع کیا جا ئے۔ جلال الدین اکبر بھی در بار لگا نے کی زحمت نہ فرماتے اپنی خواب گاہ سے ٹویٹ کر تے کہ مرہٹوں کو کھلی چھوٹ دی جا ئے تا کہ دنیا میں ہماری ساکھ بہتر ہو ہم پر من ما نی کا داغ دھبہ نہ لگ جا ئے‘ انسا نی حقوق والے ہمیں طعنے اور کو سنے دیتے نہ پھریں۔چین‘ روس اور کئی دوسرے ممالک نے سوشل ٹیکنالوجی کو اپنی سرحدوں پر روک رکھا ہے ہمارے ہاں کے بڑے بڑے فیس بکی مشا ہیر جب ان میں سے کسی ملک کے دورے پر جاتے ہیں تو مدا حوں کو اطلا ع دیتے ہیں کہ دو مہینوں کیلئے چین، روس یا ایران جا رہا ہوں فیس بک پر وہاں پا بندی ہے میں سو شل میڈیا کے آسمان پر جگ مگ، جگ مگ نہیں کر سکوں گا دوست میرا انتظار نہ کریں شکر کا مقا م ہے کہ حکومت ہمارے ہاں بھی چین، روس کی طرح سوشل میڈیا کیلئے قواعد و ضوابط مرتب کئے جارہے ہیں۔ اگر یہ کام ہوجائے تو ہمارا شمار بھی ان خوش نصیب لو گوں میں ہو گا جو مغل اعظم کے دو رمیں فیس بک اور ٹو ئٹر کے بغیر خوش و خر م زند گی گزار رہے تھے ”دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو“۔