خیبر پختونخوا معدنی ذخائر سے مالا مال ہے اور اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی اور مشینری کی بدولت ان کی ویلو ایڈیشن کرکے ان کی برآمدات بڑھانے کیلئے ضروری اقدامات اٹھائے جائیں، جس سے ملکی اور صوبے کی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گی۔ملک میں قیمتی ذخائر کے دریافت ہونے سے معیشت کو یقینا بڑا سہارا ملے گا، مگر معاشی انقلاب اسی وقت آ سکتا ہے جب انفراسٹرکچر بہتر بنایا جائے۔ حکومت ملک میں معاشی خوشحالی لانے کیلئے بہت سے اقدامات کررہی ہے۔ چین پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ میں امن و امان کی کمزور صورت حال اور توانائی کا بحران بڑی رکاوٹ ہیں، جب تک ان مسائل کو حل نہیں کیا جاتا غیر ملکی سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کیلئے آمادہ نہیں ہوگا کیونکہ سرمایہ ہمیشہ تحفظ مانگتا ہے۔ پاکستان کو درپیش مسائل زیادہ اور وسائل کم ہیں۔ انفراسٹرکچربھی ضرورت کے مطابق نہیں ہے، فیکٹریوں کی تعداد بھی اتنی نہیں جتنی ہونی چاہئے۔ وسائل میں کمی کے باعث سرمایہ کاری نہیں ہے جبکہ گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان نے کچھ عرصہ پہلے کہا تھا کہ حکومت برآمدات میں اضافے اور محصولات کو بڑھانے کیلئے جیم سٹون کے شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال متعارف کر رہی ہے اور اس مقصد کے حصول کیلئے خیبر پختونخوا میں پہلی بار آئی بی ایل کے تعاون سے بیلجیم کی عالمی شہرت یافتہ کمپنی ایچ آر ڈی انٹورپ نے جیم سٹون لیبارٹری کے قیام پر رضا مندی ظاہر کر دی، اس لیبارٹری کے قیام سے صوبہ کے قیمتی پتھروں کو عالمی سطح پر شناخت اور سرٹیفکیشن حاصل ہو جائے گی، اس کے علاوہ مذکورہ لیبارٹری میں قیمتی پتھروں کی کٹنگ، پالشنگ اور اس شعبہ سے وابستہ افراد کی تربیت بھی کی جائے گی۔ گورنرشاہ فرمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار اس شعبے کو برآمدی صنعت میں تبدیل کیا جا رہا ہے، جس طرح سے حکومت خیبر پختونخوا نے زیتون، خشک میوہ جات کے پودے اور معیاری شہد کیلئے بہت سارے عملی اقدامات اٹھائے ہیں اور جن کے ثمرات بھی ملنا شروع ہو گئے ہیں، بالکل اسی طرح معدنیات اور جیم سٹون کے شعبے میں بہتری لانا وقت کی ضرورت ہے۔ جس سے نہ صرف برآمدات اور محصولات میں اضافہ ہوگا بلکہ نوجوان کو روزگار کے مواقع بھی میسر آئیں گے اور معاشی صورتحال بھی مستحکم ہوگی۔پاکستان میں سالانہ 5بلین ڈالر کے قیمتی جواہرات برآمد کرنے کی گنجائش ہے جس سے ملک کی معیشت پر مثبت اثرپڑے گا اور روزگار کے بے پناہ مواقع بھی پیدا ہوں گے۔یقینا گورنر خیبرپختونخوا کے اس اقدام سے معاشی ترقی کے سفر میں ایک انقلاب برپاہو جائے گا جس سے معیشت میں نمایاں اضافہ ہوگا اور اس شعبے سے کثیر زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا جبکہ ہم خنجراب سے گوادر تک چین کے ساتھ مل کر اقتصادی راہداری بنانے جارہے ہیں۔ یہ منصوبہ ملک میں انقلاب برپا کرے گا۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور پوشیدہ خزانے ہمارے پاس ہیں۔ بلوچستان میں ریکوڈک اور سندھ کے علاقے تھر میں کوئلے کے بڑے ذخائر ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور قوم کی حالت بدلی جاسکتی ہے۔ رجوعہ میں لوہے اور تانبے کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں جبکہ رجوعہ کے ذخائردو ہزار مربع میٹر پر پھیلے ہوئے ہیں اور ان میں ایک فیصد تانبا ہے،اس طرح یہ ذخیرہ دنیا کے قیمتی ترین ذخائر میں سے ایک ہے۔رجوعہ سے ملنے والے خام لوہے کو سوئس اور کینڈین لیبارٹریز سے ٹیسٹ کرایا گیا ہے، جن کے مطابق حاصل ہونے والا خام لوہا 65فیصد خالص ہے، اس اعتبار سے یہ خام لوہا اعلی معیار کا ہے اور اسے براہ راست مل میں استعمال میں بھیجا جا سکتاہے۔ یہاں سے حاصل ہونے والے سونے اور تابنے کو بھی جلد ہی ٹیسٹ کے لئے بھجوایا جائے گا۔ چینی کمپنی نے تو وہاں سٹیل مل لگانے کی پیشکش بھی کر دی ہے جہاں تین ملین ٹن لوہاتیار ہو سکے گا۔تاہم چینی اور جرمن ماہرین کا خیال ہے کہ وہاں وسیع ترین ذخائر موجود ہیں۔پاکستان کے پاس پٹرول کے ذخائر تو نہیں اورگیس کی بھی شدید کمی ہے تو ایسے میں یہ ذخائر پاکستان کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ سٹیل مل اورمختلف کارخانے لگا کر لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کئے جا سکتے ہیں اور کثیر زرمبادلہ بھی کمایا جا سکتا ہے جس سے ہماری ہچکولے کھاتی معیشت بھی مستحکم ہو جائے گی۔بلوچستان کے ریکو ڈک ذخائر میں 12.3ملین ٹن تانبا اور0.9 ملین اونس سونا ریت تلے دبا ہوا ہے جو ایران اور چلی میں واقع تانبے اور سونے کے ذخائر سے بھی زیادہ ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ریکوڈک کے ذخیرے سے ابھی تک خاطر خواہ استفادہ نہیں کیا جاسکاہے۔ ہم اگر صحیح معنوں میں اپنے ملک میں موجود معدنی ذخائر سے فائدہ اٹھا نے کی کوشش کریں تو جلد ہی چاروں طرف خوشحالی کا راج ہو گا۔