جو لوگ لاس اینجلس کے بارے میں تھوڑا بہت جانتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ ایل اے(LA) ایکٹرز ایکٹریسز‘ ڈائریکٹرز اور دنیا کی حسین ترین فلموں کیلئے عالمی شہرت رکھتا ہے جہاں دولت کی ریل پیل ہے فن کی ریل پیل ہے خوبصورتیاں ہیں اور تیز رفتار زندگی ہے مجھے امریکہ میں امیگریشن مراحل کا اندازہ تھا کہ اب ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے ایک لمبی لائن کے بعد ہمارا نمبر امیگریشن آفیسر کے سامنے آیا تو سخت ترین سوالوں سے واسطہ پڑا اور آخر کار ہمارے پاسپورٹ پر ٹھپہ لگادیا گیا یقینا ہمارے جوابوں سے ان کی تسلی ہوگئی ہوتی لیکن میرے پاسپورٹ پر ایک بار پہلے کی امریکہ آنے اور پھر جانے کی مہر لگی ہوئی تھی جو بے انتہا کام آگئی وہ اس لئے کہ ان کو احساس ہو جاتا تھا کہ میں امریکہ اس سے پہلے داخل ہو کر چلی گئی تھی ہمارے پاسپورٹ پر ایسی مہر لگادی گئی کہ ہم جتنی مدت بھی چاہیں یہاں رہ سکتے ہیں میں نے دل میں سوچا بھلا ہمیں آپ کے ملک کی کیا ضرورت ہے میں تو اپنی غرض اور ضروری کام سے یہاں آتی ہوں جیسے ہی کام ختم ہو تا ہے الٹے قدموں واپس جاؤنگی میرے بچے میری راہ دیکھ رہے ہوں گے سامان کے کسٹم کے بعد باہر کے راستے پر ایگزٹ ہوگئے اور اپنے میزبان کو اپنے آنے کی غلط معلومات دینے کی پاداش میں گھنٹوں انتظار کے مراحل سے گزر ے۔ لاس اینجلس کے ائرپورٹ سے 10ڈالر کا ایسا کارڈخریدا جس سے میں ٹیلی فون بوتھ کے ذریعے اسلام آباد اپنے بچوں کو فون کر سکتی تھی اس زمانے میں مغربی دنیا میں ایسے ہی کارڈ ملتے تھے موبائل فون بہت بعد میں آیا تھا اور امریکہ میں بھی کم کم لوگوں کے پاس تھا۔ بے انتہا لمبے سفر سے میری تھکان کا عالم مختلف تھا میں نے دیکھا ایک نوجوان سا دیسی لڑکا ہمارے قریب آکر کھڑا ہوگیا اور اپنا تعارف کروایا یہی تو ہمارا میزبان تھا اس کو میرا ٹیلی فونک پیغام مل گیا تھا ہم نے ٹرالی میں سامان ڈالا اور لمبی چوڑی پارکنگ کی طرف چلے گئے ترقی یافتہ شہروں کی پارکنگ بھی دیکھ کر انسان کا منہ کھلے کا کھلارہ جاتا ہے ہمارے میزبان کے پاس پجیرو گاڑی تھی جو اس زمانے میں پاکستان میں دولت اورامارت کا سمبل مانی جاتی تھی جس نے پاکستان کی موٹر وے اور جی ٹی روڈ کا ہمیشہ ہی سفر کیا ہو اس کیلئے تو لاس اینجلس کی 6چھ رویہ سڑک حیران کرنے کیلئے کافی ہے جو صرف ایک طرف کی سڑک ہے گاڑیوں کا ایک سیلاب ہے جو ان چھ لائنوں میں دوڑاہی چلا جا رہا ہے یہ جدید ترین اور تیز رفتار ترین گاڑیاں مزید حیرانی کا باعث بنتی ہیں سوائے گاڑیوں کی آواز کے کوئی آواز نہیں ہے ہارن بجانے کا یہاں کوئی رواج نہیں ہے ہارن صرف نئی نویلی دلہن اور دلہا اپنی لیموزین میں بیٹھ کر چرچ سے باہر نکل کر بجاتے ہیں اور انکے ساتھ ان کے دوست رشتہ دار اپنی گاڑیوں میں ہارن بجاتے ہیں جس سے معلوم پڑتا ہے کہ آج ان کی زندگی کا نیا دن ہے جس یوتھ ہاسٹل میں ہم نے جانا تھا وہاں کے احاطے میں ہیرونچی بڑی تعداد میں بیٹھے ہوئے تھے اور وہ علاقہ بقول ہمارے میزبان کے نہایت ہی کم تر علاقہ ہے مجھے تو وہ بھی کم نظر نہیں آرہا تھا بہرحال ہم نے وہاں رہنے کا ارادہ ترک کرکے ایک اور خوبصورت ہوٹل اپنی بکنگ کروالی اب ہم اس گلی کو دیکھنے جارہے تھے جہاں ہمارا وہ کام تھاجسکے کرنے کیلئے ہم لمبا ترین سفر طے کرکے امریکہ آئے تھے اس گلی کا نام ہوپ سٹریٹ تھا شاید امید کی یہ وہ گلی تھی جس نے میری زندگی کے درد وغم کا آئندہ آنے والے سالوں میں مداوا بننا تھا اور میرے پورے خاندان کی زندگیوں کو تبدیل کرنا تھا لیکن آج ہم صرف چلتے چلتے اس کو دیکھنے ہی آئے تھے دراصل دو تین بعد ہی آنا تھا زندگی میں بعض فیصلے ایسے ہوتے ہیں کہ خاندان کا کوئی ایک فرد بھی وہ فیصلہ کرتو لیتا ہے لیکن سب کی زندگیاں اسکی زد میں آجاتی ہیں اگر کہ فیصلہ ایسا اچھا ہے تو کیا کہئے خوشگوار مستقبل راہ دیکھ رہا ہوتا ہے اور اگر فیصلہ ایسا ہے جو صرف ایک فرد کی ذات کو اچھا کرنے کیلئے کیا گیا ہے تو زندگی کی کئی کئی ناہمواریاں اور پتھریلی چٹانیں گھر کے تمام افراد کی زندگیوں سے ٹکرانے کیلئے منہ کھولے راستہ دیکھتی ہیں ہم لوگ میزبان کی گاڑیوں میں ہی لاس اینجلس کے ڈاؤن ٹاؤن میں پھرتے رہے مغربی ممالک میں ڈاؤن ٹاؤن خریدوفروخت کا وہ بہترین اورقابل دید مرکز ہوتاہے جو اس شہر کی پہچان ہوتا ہے جیسے پشاور میں قصہ خوانی بازار ہے یا گوارا بازار ہے۔یہ بروک ہرسٹ کے علاقے میں. واقع ایک ہوٹل تھا جس کا نام ر یجائنا پارک ان تھا۔ بروک ہرسٹ لاس اینجلس کی مشہور ترین مین روڈ ہے جہاں امرآء رہتے ہیں یہ ایک بنگلہ نما موٹل تھا جسکو انڈین میاں بیوی چلاتے تھے بیوی کا نام انجو تھا اور میاں کا نام پال تھا دونوں مالک بھی تھے منیجر بھی تھے اور تمام کرتا دھرتا کے مالک تھے۔ہمارے کمرے کا نمبر203 تھا بہت خوبصورت اور بڑا کمرہ تھا ناشتہ اسی ہوٹل میں ہمیں ملنا تھا اور کھانے پینے کا بندوبست اگلے تمام دنوں یں ہم نے خود کرنا تھا انجواورپال نے گرم جوشی سے ہمیں خوش آمدید کیا اور ہم تھکے ہارے اپنے کمرے میں چلے گئے شاید ہمارا گزرا ہوا سفر دو دن اور دوراتوں کا تھا جس کا ہمیں کوئی اندازہ پہلے سے نہیں تھا آج کل کی نسلیں تو اس قدر ذہین اور ایڈوانس ہوچکی ہیں کہ گھر سے نکلنے سے پہلے ہی سفر کی ہر مشکل اور ہر سہولت سے واقفیت منٹوں میں حاصل کرلیتی ہیں اور اس معلومات کی بناء پر اپنے سفر کو زیادہ سے زیادہ بہترین بنانے کی سہولت سے بھی مستفید ہوجاتی ہیں شاید ہماری یہ بھرپور سادگی اور بیوقوفی تھی کہ ہم نے ٹکٹ ہاتھ میں پکڑے اور چل دیئے اور پھر ایسے لمبے سفر پر جس سفر پر جاتے ہوئے بھی اوسان خطا ہو جاتے ہیں لیکن سفر کے یہی تجربات انسان کو نکھارتے ہیں اس کے تجربات اور مشاہدات میں اضافہ کرتے ہیں اور بہتر زندگی کی طرف اسکی رہنمائی کرتے ہیں کمرے میں پہنچتے ہی مجھے سوائے اس بات کے کوئی ہوش نہ تھا کہ میں نے سونا ہے اور یقینا نیند اللہ پاک کی دی ہوئی نعمتوں میں سے ایک ایسی نعمت ہے جسکا نعم البدل کوئی نہیں آپ کتنے ہی غمزدہ کیوں نہ ہوں آپ کی زندگی میں کتنے ہی طوفان اور جھکڑ چل رہے ہوں اور آپ کی کشتی کتنی ہی منجدھارمیں کیوں نہ ہوں کچھ پل کی نیند آپ کو پھر سے دنیا کے دروغم سے نبردآزما ہونے کیلئے تیار کردیتی ہے۔