موبائل فون کا استعمال

انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین (آئی ٹی یو)نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس سال کے اختتام تک موبائل نیٹ ورکس دنیا کی 92فیصد آبادی تک پھیل جائیں گے اور عالمی سطح پر موبائل فون سبسکرائبرز کی تعداد11 کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔سائنسی ایجادات نے بلاشہ ہماری زندگی میں بہت ہی سہولیات میسر کی ہیں جن میں بجلی،ہوائی جہاز، گاڑی اور بہت کچھ شامل ہے۔ ذرا سوچیں کہ بجلی نہ ہوتی تو ہماری زندگی کیسے گزررہی ہوتی مطلب کہ ہر ایجاد نے انسانی زندگی کو سہل بنایا ہے۔ ان ایجادات میں ایک ایجاد موبائل فون بھی ہے۔موبائل فون کی پاکستان آمد بہت تہلکہ خیز تھی لوگ حیرت سے اس کو دیکھتے تھے جس کے ساتھ نہ کوئی تار تھی اور نہ کوئی سوئچ وغیرہ لگانا پڑتا تھا، اس کا سائز اور اس کا بکس اتنا بڑا تھا کہ رئیس قسم کے لوگ موبائل فون کیلئے اپنے ساتھ ایک ملازم رکھتے تھے جو کہ موبائل ان کے ساتھ ساتھ اٹھائے پھرتا تھا۔پھر آہستہ آہستہ اس کا سائز کم ہوتا چلا گیا، اس کے ساتھ اس کی قیمت میں بھی کمی آئی، اس کے باوجود یہ قیمت اتنی کم نہیں تھی کہ ہر کوئیخرید سکتا۔مگر اب یہی موبائل فون جو کبھی امارت کی نشانی تھی اور جسے کسی کے ہاتھ میں دیکھ کر ہمارے ہاتھوں کے طوطے اڑجاتے تھے۔ اب اپنی ناقدری کا رونا روتا نظر آتاہے،میں جب اس کا ماضی یاد کرتا ہوں اور اس کے حال پر نظر ڈالتا ہوں تو دھیان مسلمانوں کے عروج و زوال کی طرف چلا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی انڈسٹری موبائل فون ہی ہے۔پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران زندگی کے ہر شعبے میں جدت بڑھ گئی ہے اور اب جدید ٹیکنالوجی کی بدولت پاکستانی بھی ماضی کی نسبت زیادہ سے زیادہ نئی ایجادات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔دنیا کے پہلے موبائل کا بنیادی کام صرف کال کروانا تھا اور موبائل کی اس پہلے نسل کو 1Gیعنی فرسٹ جنریشن کا نام دیا گیا تھا اور اس موبائل میں کال کرنے اور سننے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہوتا تھا۔پھر جب موبائلز میں SMSیعنی سینٹ میسج کا آپشن ایڈ ہواتو اسے 2Gیعنی سیکنڈ جنریشن کا نام دیا گیا۔پھر جس دور میں موبائلز کے ذریعے تصاویر بھیجنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لی گئی تواس ایج کے موبائلز کو 3Gیعنی تھرڈ جنریشن کا نام دیا گیا تھااور جب بذریعہ انٹرنیٹ متحرک فلمز اور مویز بھیجنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لی گئی تو اس ایج کے موبائلز کو 4Gیعنی فورتھ جنریشن کا نام دیا گیااور ابھی جب موبائلز کی دنیا 5Gکی طرف بڑھ رہی تو اس وقت تک دنیا کی ہر چیز کو موبائل میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔ آج دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا کام ہو گا جو موبائل سے نہ لیا جا رہا ہو۔ مگر حیرت ہے کہ اتنی ترقی کرنے اور نت نئے مراحل سے گزرنے کے باوجود یہ موبائل آج بھی اپنا بنیادی کام نہیں بھولا۔ آپ کوئی گیم کھیل رہے ہوں یا فلم دیکھ رہے ہوں، انٹرنیٹ سرچنگ کر رہے ہوں یا وڈیو بنا رہے ہوں الغرض موبائل پر ایک وقت میں مثلا 10کام بھی کر رہے ہوں لیکن جیسے ہی کوئی کال آئے گی موبائل فورا ًسے پہلے سب کچھ چھوڑ کر آپ کو بتاتا ہے کہ کال آرہی ہے یہ سن لیں اور وہ اپنے اصل اور بنیادی کام کی خاطر باقی سارے کام ایکدم روک لیتا ہے۔ہمیں بھی موبائل فون کے استعمال میں کچھ حدود و قیود کا خیال رکھنا چاہئے۔خاص کر غیر ضروری مقامات پر اس کا ساتھ چھوڑنا چاہئے۔خاص کر مسجد جاتے ہوئے اگر ہم اسے گھر چھوڑ کر آئیں تو بہتر ہے کیونکہ نماز کے دوران نہ فون سن سکتے ہیں اور نہ فون کال کرنے والے کو جواب دے سکتے ہیں۔لہٰذا موبائل مسجد میں لے کر آنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسی طرح گاڑی چلاتے وقت تو موبائل کا استعمال جان سے کھیلنے کے مترادف ہے، جبکہ ہمارے ہاں موٹر کار کو تو چھوڑئیے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے بھی موبائل فون کا استعمال جاری رہتا ہے۔اسی طرح اگر آپ کھانا کھا رہے ہیں اور لقمہ آپ کے حلق میں پھنسا ہوا ہے، آپ کو کھانسی کا دورہ پڑا ہوا ہے،آپ واش روم میں ہوں،آپ کسی تقریب میں بیٹھے ہیں کہ فون کی گھنٹی بجتی ہے آپ جیسے تیسے اس شریف آدمی کو بتاتے ہیں کہ میں اس وقت اس مشکل میں گرفتار ہوں لہذا آپ سے بعد میں بات ہوگی مگر وہ تب تک آپ کو کسی ایک مزید مشکل میں ڈال چکا ہوتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مفید آلے کو ہم اپنے لئے زحمت نہ بنائیں اور اس کو سہولت ہی کے زمرے میں رکھیں تو اس کے نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔