پاکستانی حیاتیاتی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ملک کے بالائی علاقوں میں جل تھلیوں (ایمفی بیئنز) کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اس ضمن میں پہلی مرتبہ ایک منظم رپورٹ شائع کی گئی ہے۔
روالپنڈی میں واقع زرعی بارانی جامعہ میں واقع ہرپیٹولوجی لیبارٹری کے ماہرین نے کہا ہے کہ مینڈک صحت مند ماحول کو ثابت کرتے ہیں۔ وہ جنگلات اور فصلوں میں مضر کیڑے مکوڑوں کو حیاتیاتی کنٹرول بھی فراہم کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں بے زبان اور حساس مینڈکوں کی 40 فیصد انواع کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس ضمن میں ڈیٹا کی شدید قلت بھی ہے۔
دوسری جانب چٹرائڈ فنگس نے ان جانوروں کو بہت متاثر کیا ہے۔ پوری دنیا میں مینڈکوں کی کئی انواع کو ناپید کرنے میں بھی اس کا ہاتھ ہے۔
اب زوکیز نامی تحقیقی جرنل میں پاکستان کی 21 انواع کا احوال دیا گیا ہے جن تک پہنچنا بہت مشکل تھا۔ ان میں سے کئی مینڈک شمالی علاقہ جات کی بلندیوں پر موجود ہے اور بعض مغربی پہاڑی سلسلوں میں پائے جاتے ہیں۔ تاہم امکان ہے کہ پاکستانی مینڈکوں کی بڑی انواع اب بھی سائنس کے نظروں سے اوجھل ہوسکتی ہے۔
پاکستانی ماہرین نے کہا ہے کہ ملک میں مینڈکوں کے مسکن تاہی، شہری آبادی کے پھیلاؤ، آلودگی، ناپائیدار ترقی اور دیگر انسانی خطرات کے شکار ہیں۔ ان کے بچاؤ کی واضح اور دیرپا حکمتِ عملی کی بھی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے ان جانوروں کی بقا کے لیے قانون سازی پر بھی زور دیا کیونکہ اب تک ان جانوروں کے بقا کے لئے کوئی قانون سازی نہیں کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جانوروں کے تحفظ اور بقا کے منصوبوں کا شیڈول تھری اور انواع کے تحفظ کی صوبائی اور وفاقی قوانین میں نظرثانی کرکے ان جانوروں کو بھی شامل کیا جانا چاہئے۔ پاکستان میں اس وقت چوپایوں، ہرنوں اور پرندوں وغیرہ کے تحفظ کی بات ہورہی ہے جبکہ جل تھلیے اس منظر سے غائب ہیں۔ لیکن مینڈک کسی بھی ایکو سسٹم کو تندرست رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اسکالروں نے کل 21 اقسام کے مینڈکوں کا ذکر کیا ہے جن میں ایشین کامن ٹوڈ، اولیو ٹوڈ، انڈس ویلی ٹوڈ، کشمیر ٹورینٹ فراگ، ہزارہ ٹوریںٹ فراگ، اسکٹرنگ فراگ، مری ہلز فراگ، کاریز فراگ، لداخ ٹوڈ، آنٹ فروگ، ماربل بلون فراگ، اور دیگر اقسام کے چھوٹے بڑے مینڈک شامل ہیں۔