دنیا بھر میں توانائی کے ذرائع مہنگے ہونے سے تمام ضروریات زندگی پر اثر پڑا ہے، گیس، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا سفر ابھی جاری ہے۔،معیشت کے استحکام کیلئے توانائی بحران کے خاتمے کی جانب ثمر آور اقدامات کی ضرورت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ گزشتہ تقریبا 3سال سے بجلی اور گیس کی قیمتوں ہمارے ہاں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بجلی کے فی یونٹ نرخ میں 1.95 روپے اضافہ کردیا گیا ہے۔ تاہم مہنگائی کا یہ عمل پوری دنیا میں جاری ہے، یورپ کے ترقی یافتہ ملک جرمنی کی مثال اس حوالے سے دی جا سکتی ہے جرمنی میں افراط زر کی شرح میں مسلسل چوتھے مہینے بھی اضافہ دیکھا گیا۔ یہ شرح اس وقت 4.5 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اشیاء کی قیمتوں میں ہونے والے اس ہوش ربا اضافے کا تعلق یورپ میں بھی توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے ہے۔جرمنی میں اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان مسلسل جاری ہے۔ 1993کے بعد قیمتوں میں اضافے کے حالیہ رجحان کو بہت تیز قرار دیا گیا ہے اور اس میں توانائی کی قیمتیں بھی تیزی سے بڑھی ہیں۔یہ تو ایک جھلک تھی یورپ کے ترقی یافتہ ممالک پر توانائی کے ذرائع مہنگے ہونے کے اثرات جہاں تک ہمارے ملک کا تعلق ہے تو، چونکہ ہمارے ہاں بھی بجلی کی پیداوار میں پٹرول، گیس اور ڈیزل کا استعمال ہورہا ہے، اس کے مد نظر فی یونٹ بجلی نرخوں میں اضافے سے بجلی صارفین پر بے تحاشا بوجھ پڑا ہے‘ اضافے کا اطلاق ماہ اکتوبرسے لاگو ہوگیا ہے۔ قبل ازیں گزشتہ ماہ کے دوسرے ہفتے میں نیپرا نے جولائی کے ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں فی یونٹ نرخوں میں 1روپیہ 38پیسے اضافہ کی منظوری دی۔ قیمتوں میں اضافے کے احکامات فروری 2021 اور مئی 2021میں بھی جاری ہوئے۔ ان تمام احکامات پر فوری عملدرآمد کیا گیا اور مجموعی طور پر فروری 2021 سے اب تک بجلی کے صارفین پر اندازہ اڑھائی سو ارب روپے کا بوجھ ڈالا جا چکا ہے ایسے حالات میں کہ جب معیشت پہلے ہی شدید دباؤ اور مشکلات کا شکار ہے۔کھربوں روپے کے قرضوں تلے دبی معیشت کو خسارے سے مکمل طور پر نکالنے کیلئے پیداواری لاگت کو کم کرنا ہوگا ایسے میں اگر توانائی بحران برقرار رہتا ہے تو اس ضمن میں اہداف کا حصول انتہائی دشوار ہوگا۔ اسی طرح حالیہ دنوں وفاقی حکومت کی کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے سردیوں کے مہینوں میں 300 یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے پر ایک نئے ٹیرف کی منظوری دی ہے جس کے مطابق ان صارفین پر 12.66 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی کا بل وصول کیا جائے گا۔اس ٹیرف کا اطلاق سردیوں کے چار مہینوں یعنی یکم نومبر 2021 سے 28 فروری 2022 تک رہے گا۔ اس وقت 300 یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے والے صارف کو ایک یونٹ پر 22 روپے سے زیادہ بل ادا کرنا پڑتا ہے جس میں ٹیکس شامل نہیں۔ پاکستان میں مہنگائی جانچنے کا پیمانہ کنزیومر پرائس انڈیکس ہے جسے عام طور پر سی پی آئی کہا جاتا ہے۔ اس انڈیکس کے ذریعے ملک میں مہنگائی کی شرح معلوم کی جاتی ہے۔کنزیومر پرائس انڈیکس میں عمومی استعمال میں آنے والی اشیا اور خدمات کا ایک سیٹ بنایا جاتا ہے جسے سی پی آئی باسکٹ کہا جاتا ہے۔ اس باسکٹ میں موجود مختلف چیزوں کی قیمتوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔سی پی آئی باسکٹ کے مطابق ایک پاکستانی اوسطا 34.58 فیصد کھانے پینے کی اشیا پر خرچ کرتا ہے، 26.68 فیصد مکان کے کرائے، بجلی، گیس، پانی کے بلوں اور ایندھن پر، 8.6 فیصد کپڑوں اور جوتوں کی خریداری پر، تقریبا سات فیصد ہوٹلنگ، تقریبا چھ فیصد نقل و حمل، چار فیصد سے زائد گھر کی تزئین و آرائش اور مرمت پر، 3.8 فیصد تعلیم اور 2.7 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔اس انڈکس میں بجلی پر اٹھنے والے اخراجات کا حجم بڑھتا ہوا نظر آتا ہے جس کا مطلب صارف کے دیگر اخراجات میں کمی اور معیار زندگی متاثر ہوناہے۔اس لئے بجلی گیس اور دیگر ضروریات زندگی کی عام آدمی کے لئے آسانی اور سہولت کے ساتھ دستیابی کو یقینی بنانا ضروری ہے اس سے ملک کا امن بھی وابستہ ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی کی لہر نے صرف پاکستان کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو متاثر کیا ہے اور جیسے پہلے ذکر کر لیا ہے کہ یورپ کے ترقیافتہ ممالک میں بھی مہنگائی بڑھ رہی ہے تاہم ان ممالک اور ہمارے عوام کی قوت خرید میں نمایاں فرق ہے۔اس طرف توجہ دینے کی ازحد ضرورت ہے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔