بولے بغیر اس نے جیب سے10روپے نکالے

گیٹ کے باہر جیسے ہی گاڑی روکی ایک 9-8 سال کا لڑکا گاڑی کے شیشے سے جھانکنے لگا‘میلے  سے کپڑے پہنے ہوئے اور صحت کے لحاظ سے ذرا ابتر دکھائی دے رہا تھا میں نے کبھی بھی اپنی گلی میں اس بچے کو نہیں دیکھا تھا کیونکہ گلی کے تمام بچے میرے ساتھ اس لئے مانوس ہیں کہ میرے گھر میں آنے والے ان کے گیند میں ان کو مسکرا کر واپس کردیتی ہوں اور ان سے ان کے مشاغل‘ تعلیم کے بارے میں بھی میری اکثر ہی گفتگو رہتی ہے اس کے علاوہ ان کو پنسل ربڑ کے لئے زبردستی کچھ روپے دینا بھی ان کو بہت اچھا لگتا ہے‘بنی گالہ ملی جلی آبادی کا شہر ہے جہاں گائے بھینس بھی وافر ہیں اور مرسڈیز اور پراڈو بھی گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں‘ خوبصورت بنگلوں کے ساتھ گاؤں کے کچے پکے گھر بھی موجود ہیں گاڑیاں ڈرائیو کرتی ہوئی ماڈرن عورتیں بھی نظر آتی ہیں اور گاؤں کی چادر لپیٹے ہوئے پیدل چلتی ہوئی خواتین بھی موجود ہیں میں نے گاڑی سے اتر کر گیٹ کھولا تو وہ بچہ میرے گیٹ کے سامنے کھڑا ہوگیا اس کے ہونٹ بہت پکے ہوئے تھے منہ سے ایک عجیب سی رال بہہ رہی تھی بولے بغیر جیب سے10 روپے کا نوٹ نکالا اور مجھے دکھایا کہ یہ چاہئے میں نے جلدی سے کچھ دس کے نوٹ اس کو اپنے پرس میں سے نکال کر دے دیئے لیکن وہ کھڑا رہا پھر میں نے اسکو بہت پیار سے جانے کو کہا اور وہ واقعی چلا گیا کتنی دیر میں اسکے بارے میں سوچتی رہی کہ یہ خوبصورت شکل و صورت والا بیمار بچہ کس کی ذمہ داری ہے معاشرے کی‘ ماں باپ کی‘ حکومت کی‘ مجھے یاد ہے کینیڈا میں اپنے کسی بیمار بچے کو ڈاکٹر کے پاس دیر سے لے جانے کو والدین کا  بچے کو نظر انداز کرنا کہلاتا ہے اور اس کو پہلے عدالت اور پھر جیل جاکر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ایک سکھ فیملی کو میں جانتی ہوں جس کی ماں سے غلطی سے گرم ابلتے ہوئے پانی کا نلکا اس وقت کھل گیا جب وہ بچے کو نہا رہی تھی بچہ معمولی سا جل گیا سکھ صاحب دوڑتے ہوئے ہسپتال پہنچے ڈاکٹر نے پولیس کو کال کرلی سکھ نے بیوی کو فون کیا کہ ہسپتال آجاؤ جیل جانا ہے یہ حقیقت ہے مغربی ممالک میں بچے کی بیماری کیلئے اسکو نظر انداز کرنے کیلئے اسکی ضرورتیں پوری نہ کرنے کے ذمہ دار والدین ہوتے ہیں اور اس کے لئے اس کو جواب دہ ہونا پڑتا ہے معمولی سے زکام بخار میں بچے کو سکول بھیج دیا جائے تو سکول سے ماں باپ کو فون آجاتا ہے کہ اس کو آرام کی ضرورت ہے تعلیم ضروری نہیں صحت ضروری ہے نہ جانے ہم کس معاشرے میں رہتے ہیں یہ تمام باتیں سوچتے سوچتے میں گھر کے کاموں میں مصروف رہی‘صبح گھنٹی کی آواز پر آنکھ کھلی دیکھا تو سوئپر تھا روز ہی ہوتا ہے حسب معمول سوزوکی لئے کھڑا تھا مغرب کی طرح پاکستان میں تبدیلی کچھ اس طرح آئی  ہے کہ اب کوڑا لینے والے سوزوکیوں میں آنے لگے ہیں آج بھی اس کا7سالہ بیٹا ڈرائیونگ سنبھالے بیٹھا تھا میں نے باہر ڈنڈے کے ساتھ لٹکے ہوئے اس کے باپ شیرخان سے کہا کہ آج تم نے پھر اس کو سٹیئرنگ دے رکھا ہے کہنے لگا باجی یہ نہیں مانتا بس کہتا ہے‘ اف خدایا آپ سوچیں 7سال کا بچہ ابھی اس کے ہاتھ پاؤں بال کھیلنے کیلئے ہیں وہ بریکوں پر پاؤں بھی پوری طرح نہیں جما سکتا وہ مزے سے گاڑی چلا رہا ہے قانون والدین معاشرہ سب سوگئے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں میں نے کہا شیرخان یہ سکول کیوں نہیں جاتا کہنے لگا باجی اس سے استاد بھی تنگ ہیں انہوں نے اسکو پڑھانا چھوڑ دیا ہے شرارتیں کرتا ہے اور وہ شرارتی میری اپنے باپ کے ساتھ گفتگو سن کر مسلسل مسکرا رہا تھا وہ ذہین بچہ تھا ڈرائیونگ اس نے سیکھ لی تھی سکول میں بھی وہ ذہانت کی وجہ سے شرارتوں میں لگا رہتا ہوگا ایک تو والدین کا اسکی تعلیم کی طرف سے آنکھیں بند کرلینا اور پھر واہ رے اساتذہ‘ کہ بجائے اسکے آپ بچے پر توجہ دیں اس سے اسکی انرجی کے مطابق اسکی شرارتوں کو آرٹ کی طرف تعلیمی مشاغل کی طرف  موڑ دیں آپ کہہ رہے ہیں اسکی شرارتیں زیادہ ہیں شیر خان کا بچہ  اب بھی ذہنی طور پر بڑا ہے اور اگلے5/4 سال میں وہ بلوغت کے اعلیٰ درجے تک پہنچ جائے گا کیا اس کا مقدر ان پڑھ رہ کر کچرا اور کوڑا اکٹھے کرنے تک محدود ہو کررہ جائے گا میں بے بس ہوں کوڑے والا کب کا جا چکا ہے میں اندر آکر سرپکڑ کر بچھڑ گئی ہوں کون ذمہ دار ہے ان سب باتوں کا جواب میرے پاس ہے بھی اور نہیں بھی ہے راستہ جاتے ہوئے میں جب بھی ننھے بچوں کو گلیوں میں کھیلتا ہوا دیکھتی ہوں یوں ہی تصریحاً انکو ہاتھ ہلا دیتی ہوں جواب میں وہ بھی خوش ہوتے ہیں آج بھی ایسا ہی ہوا کچھ غریب ترین بچے گلی میں غریب سے کھیل میں مشغول تھے میں نے ان کو ہاتھ ہلا دیا یقین کریں ایک معصوم سا بچہ تو جیسے خوشی سے بے قابو ہوگیا کتنی دیر تک دور تک مجھے ہاتھ ہلاتا رہا‘معصوم فرشتے‘ معصوم بچے‘ ہم کس طرح ان کو ضائع کرتے ہیں ان کا استحصال کرتے ہیں ان سے گاڑیاں چمکواتے ہیں اپنے بوٹ پالش کرواتے ہیں اپنے گھروں کے گردوغبار صاف کرواتے ہیں اپنے پاؤں ان کے ننھے ہاتھوں سے دبواتے ہیں اور نہ جانے کیا کیا مشقت‘ کہ لکھے ہوئے میرے الفاظ بھی شرمندہ ہو جائیں ہم عجیب لوگ ہیں ابھی پشاور میں چند روز رہی تو ایک فلیٹ بلڈنگ جس میں سات آٹھ فلیٹس بنے ہوتے تھے جب ان کی سیڑھیاں چڑھتی تھی تو ناک پر چادر رکھ لیتی تھی بدبو‘ گند‘ مٹی سے اٹی ہوئی سیڑھیاں‘ ہر فلیٹ کا ہر مکین اسکی صفائی دوسرے کی ذمہ داری قرار دیتا ہوگا وہاں بھی چند  بچے ایک ایک فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے کوڑا اکٹھا کرتے تھے میں نے بہن سے پوچھا کہ یہ کتنے پیسے لیتے ہیں کہنے لگی کہ یہ مفت لے جاتے ہیں کہیں سب کوڑا اکٹھا کرتے ہیں اور پھر ان کا مالک بیچتا ہے وہی ان کو پیسے دیتا ہے  بچے‘ نہایت خوبصورت‘ صحت مند‘ سکول جانے کے قابل‘ میں نے انکو کچھ اجرت دے کر فلیٹ بلڈنگ کی سیڑھیاں صاف کروائیں مجھے بہت ندامت بھی ہوئی لیکن وہاں آدمیوں کی آمدورفت ایسی تھی کہ میں خود یہ کام نہیں کر سکتی تھی 50 روپے کی اجرت پر انہوں نے صفائی کی جیسے تعلیم کی دولت ان کے ہاتھ لگ گئی کیا تعلیم ان کا حق نہیں ہے کیا کھیل کا میدان ان کا حق نہیں ہے کون ان سب کوتاہیوں کا ذمہ دار ہے کون اپنی نسلوں کو گمراہ اور بیمار کرنے کے درپے ہیں کیا ہم انسان بھی ہیں اور پھر انسانیت کے دعویدار بھی ہیں۔