ادائیگی کیلئے لمبی قطاریں لگ گئیں 

اسلام آباد بہت خوبصورت شہر ہے اگر دامن کوہ کے پہاڑ سے نیچے شہر کی طرف نگاہ کریں تو مغربی ممالک کے کوئی حسین و جمیل دارالخلافے سے کسی طور کم نہیں ہے لہراتی بل کھاتی ہوئی پگڈنڈیاں۔ ہائی ویز۔ ایک ترتیب سے بنے ہوئے قطار در قطار بنگلے۔ ہائی رائز بلڈنگ سب ایک دم اچھا لگتا ہے۔ میں جناح سپر کی طرف چڑیا گھر جانے والی سڑک کی مخالف سمت مڑی تو مجھے اک امیر ترین ملک میں ہونے کا احساس ہوا۔ ہر بنگلے کے باہر ایک گارڈ۔ ایک لمبی نئے ماڈل کی کار یہ سب کچھ لوگوں کی اعلیٰ ترین حیثیت کو ظاہر کر رہا تھا۔ میں شدت سے سوچ رہی تھی کہ کون کہہ سکتا ہے کہ پاکستان تباہ حال ہو گیا ہے۔ پاکستان کی معیشت خراب ہے۔ پاکستان کا رہن سہن نچلے درجے کا ہے۔ اسلام آباد، لاہور، کراچی، فیصل آباد، گجرات، گوجرانوالہ اور یہاں تک کہ پشاور کے بعض علاقوں کو دیکھ کر تو لگتا ہے کہ ہم امریکہ یا یورپ کے علاقوں سے گزر رہے ہیں۔ جہاں، غربت، گندگی، افلاس کا کبھی گزر بھی نہیں ہوا، لیکن مجھے علم ہے کہ ایسا نہیں ہے، ہر غیر ترقی یافتہ شہر میں بھی ایسے پوش علاقے موجود ہوتے ہیں جو کسی بھی ملک کا الٹ نقشہ یا تصویر پیش کرتے ہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ اقوام کی تہذیب ثقافت اور بودوباش ہوئے طبقے کے لوگوں میں رہ کر پتہ چلتی ہے۔ تو پاکستان کے شہروں کی زیادہ تر آبادیاں اپنے بڑے خاندانوں کے ساتھ چھوٹے گھروں میں رہتی ہیں۔ بمشکل زندگی کی ضروریات پوری کرتی ہیں اور پرتعیش سامان زندگی ان کی پہنچ سے کوسوں دور ہوتی ہیں۔ میں تو ایف سکس کے سیکٹر میں اپنے بہت ہی پرانے کولیگ کی فیملی سے ان کی دعوت پر ملنے جا رہی تھی۔ نہایت اعلیٰ پائے کے مصور،سکالر،ادیب اور براڈ کاسٹر جناب سمیع قریشی آج کل عمان میں رہتے ہیں لیکن کچھ دنوں کیلئے اسلام آباد آئے ہوئے تھے۔ کچھ تگ ودو کے بعد مجھے ان کی رہائش گاہ مل گئی تھی۔ اتنا بڑا گھر تھا کہ حیرت ہوئی کہ اسلام آباد میں اتنے بڑے گھر بھی موجود ہیں۔ بیک وقت 6/7گاڑیاں کھڑی کرنے کیلئے وسیع و عریض پورچ دیکھ کر گھر والوں کی شان و شوکت کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ ان کی میرے لئے عزت و تکریم کا یہ عالم تھا کہ دروازے پر باہر آکر میرا استقبال کیا۔ بہت اچھا لگا۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھے تو دیکھا کہ یہاں اک عارضی سا سٹوڈیو بنایا گیا ہے جہاں دیوار پر کرکٹ ورلڈ کپ کا مونو گرام لگا ہواہے۔ سامنے ویڈیو کیمرہ لگایا گیا ہے۔ میز پر آئی پیڈ جو جدید ترین ماڈل کا ہے رکھا ہوا ہے اور نہایت نفیس قسم کی سامنے دو کرسیاں لگائی گئی ہیں۔ ڈرائنگ روم میں ایک دم سے راشد لطیف داخل ہوئے اور نہایت گرم جوشی سے مجھے سلام دعا کیا۔ یہ تو مجھے علم تھا کہ میرے کولیگ کے داماد پاکستان کے مایہ ناز کرکٹ کھلاڑی راشد لطیف ہیں اور ان کے دونوں چھوٹے بھائی بھی ان ہی کے داماد ہیں یعنی تین بہنیں تین بھائیوں پر بیاہی ہوئی تھیں۔ لیکن مجھے علم نہ تھا کہ راشد لطیف پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ پتہ چلا کہ یہ گھر راشد لطیف کا ہے اور وہ پی ٹی وی کے ساتھ ایک کنٹریکٹ ورلڈ کپ کرکٹ کا سائن کرکے آج کل یہاں ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں اور جو سٹوڈیو میں دیکھ رہی تھی یہاں وہ الگ سے روزانہ رات کو یو ٹیوب کیلئے caught behindکے نام سے تبصرے اور تجزئیے ریکارڈ کرتے ہیں۔ ان سے مل کر اور پوری فیملی کے ساتھ مل کر نہایت خوشی ہوئی۔ جتنے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نامور یہ لوگ ہیں اس سے بڑھ کر ان کے اخلاق ہیں۔ تمام بچے، بڑے، ایسے خوبصورت ادب آداب کے ساتھ ملے کہ اچھا لگا کہ ابھی تک ہماری روایات، اخلاقیات کس قدر زندہ ہیں، راشد لطیف صاحب سے اور تمام فیملی سے کرکٹ کے بارے میں بھی اور پاکستان، عمان اور کینیڈا سے متعلق ڈھیروں باتیں ہوئیں۔ میں نے اپنی کتابیں اپنے کولیگ کو تحفتاً پیش کیں اور جواب میں ان کی لکھی ہوئی نہایت بیش قیمت مصوری کے موضوع پر لکھی گئی کتاب شکرئیے کے ساتھ قبول کی۔ گرم جوشی کے ساتھ ان کے گھر سے رخصت ہوتی قطار در قطار پاکستان کے امیر طبقے کے ٹھاٹ باٹ دیکھ دیر تک سوچتی رہی۔ پاکستان صرف ٹی وی چینلز پر تباہ حال ہے۔ ٹی وی کی خبریں دیکھ۔ تبصرے اور تجزیئے دیکھ تو مایوسی کی اک گہری دلدل سامنے کھڑی ہوتی ہے اور عام انسان اپنے آپ کو اس میں گرتا ہوا خود یکھتا ہے۔ اس کا دل دماغ مفلوج ہونے کیلئے ٹی وی کا ایک گھنٹے کا لڑائی جھگڑوں سے بھرا ہوا سیاسی پروگرام کافی ہوتا ہے۔ دل کی بیماریاں اور شوگر لیول کم ہو جاتا۔ بلڈ پریشر کا بڑھ جانا اس کے علاوہ بونس کے طور پر ہوتا ہے۔ پاکستان ماشاء اللہ آباد اور سکھی ہے۔ سڑکیں گاڑیوں سے بھری ہیں۔ پٹرول پمپ پر کوئی بھی جھگڑا نہیں کر رہا ہوتا کہ تیل مہنگا کیوں ہو گیا ہے۔ دکاندار لفافے بھر رہے ہیں ان کے ہاتھ لمحوں کیلئے بھی نہیں رک رہے لوگ پکڑ پکڑ کر جا رہے ہیں۔ ادائیگیاں بھی کر رہے ہیں ایک ریستوران میں کھانا کھایا۔ بہت وسیع و عریض ریستوران اس طرح بھرا ہوا تھا کہ بیٹھنے کی جگہ دستیاب ہونے کیلئے کچھ دیر انتظار کرنا پڑا۔ جناح سپر پر خریداری کیلئے ایسی بھیڑ تھی کہ حیرانگی ہوئی معیشت کہاں گری ہے۔ سب ٹھیک ہے، گداگرا بھی نسبتاً کم تھے۔ عام آدمی بھی برگر، جیولری شاپ، پان، آئس کریم، قلفی، پکوڑے بیچ رہا ہے، معیشت صحیح کھڑی ہے، کیمسٹ سے دوائیاں خریدیں۔ ایک لمبی قطار میں کھڑی ہو کر اپنی باری کا انتظار کیا اور دوائی کی قیمت ادا کی۔ جو شیمپو دو سال پہلے جس قیمت پر لیا تھا وہ ابھی تک اتنی ہی قیمت کا تھا، یقینا کچھ مہنگائی ہوئی ہے، لیکن اگر آپ دنیا کے دوسرے ممالک کا مقابلہ کریں تو ہمارا ملک دنیا بھر میں سستا ترین ملک ہے‘ ہر ایک کو پیٹ بھرنے کے لئے محنت کرنا پڑتی ہے خوش رہیں، خوشیوں کو تقسیم کریں، آسانیاں پیدا کریں اور خاص طور سے اپنے بچوں، اپنی بیوی، اپنی بہنوں اور والدین کیلئے دنیا کے سب سے اچھے اور محبت کرنے والے انسان بن جائیں۔