باوجود اس کے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی توجہ اس وقت صحت سہولیات کی فراہمی کو بہتر بنانے پر مرکوز ہے پاکستان کا شمار دُنیا کے ان ملکوں میں ہوتاہے جہاں طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور آبادی کی مناسبت سے فی کس ڈاکٹر کی دستیابی بھی کم ترین درجے پر ہے۔ انسان کی بنیادی ضروریات میں رہائش، خوراک اورصحت شامل ہیں جو کہ ہر ریاست کے شہریوں کے بنیادی حقوق ہوتے ہیں جو کہ ان کو ریاست کی جانب سے تقریباً مفت مہیا کئے جاتے ہیں اور اگر مفت میں نہ بھی ملے تو ان کی رسائی آبادی کے زیادہ تر حصے کو ہو۔یعنی طبی سہولیات یا تومفت ہوں یا پھر بہت سستی۔ محکمہ صحت کے ذرائع نے بتایا کہ 1984سے اب تک کلینک کرنیوالے ڈاکٹرز کیلئے فیسوں کے تعین سے متعلق ضابطوں کو تبدیل نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹرز اپنے کلینکس پر من پسند فیسوں کے تعین میں آزاد ہیں پشاور کے مختلف میڈیکل سنٹرز میں بھی ڈاکٹرز اپنے کلینکس پر غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے مریضوں سے ڈبل فیس چارج کر رہے ہیں یعنی مریض سے چند منٹ کے معائنے کیلئے ایک ہزار روپے سے لیکر پچیس سو روپے تک چارج کئے جارہے ہیں۔گذشتہ دنوں نجی کلینکس میں ڈاکٹروں کی طرف سے بے تحاشہ فیسوں کی وصولی کا معاملہ صوبائی اسمبلی پہنچ گیا اور ڈاکٹروں کی جانب سے من چاہی فیسوں کی وصولی کی روک تھام اور فیسوں کے تعین کیلئے قانون سازی پر اتفاق کرتے ہوئے معاملہ کمیٹی کو ارسال کر دیا گیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خیبر پختونخواہ حکومت نے تمام ٹیچنگ ہسپتالوں کے ایمر جنسی میں مفت علاج کی سہولت فراہم کر رکھی ہے جس کی وجہ سے عوام کو بہت حد تک ادویات اور مفت ٹیسٹوں کی سہولت میسر ہے۔ایمرجنسی میں مفت علاج کی سہولت کی افادیت سے کسی کو انکار بھی نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مریض کا علاج ایمرجنسی میں ہی ممکن نہیں اور کچھ ہی گھنٹوں بعد مریض کو متعلقہ وارڈ میں شفٹ کر دیا جاتا ہے جس کے بعد مریض اور اس کے لواحقین کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔مریض کو اگر کچھ گولیاں وارڈ میں سے مل بھی جائیں تب بھی اس کو ٹیسٹ کروانے کیلئے ہسپتال میں ہی سرکاری فیس جمع کروانی پڑتی ہے۔کہنے کو تو تمام سرکاری ہسپتالوں میں داخل مریضوں کے مفت ٹیسٹ کروانے کی سہولت کا طریقہ کار بھی بنایا گیا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں مریض خوار ہونے پر مجبور اس لیے ہیں کیونکہ سرکاری ہسپتالوں میں فراہم کی گئی سہولیات مریضوں کی تعداد سے بہت زیادہ کم ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں بھی آیا ہے کہ سرکاری ہسپتال کے بعض ڈاکٹر مریضوں کو یہ کہہ کر پرائیویٹ لیبارٹری میں بھجواتے ہیں کہ سرکاری ہسپتال کی لیبارٹری کی رپورٹ قابل اعتبار نہیں حالانکہ سرکاری ہسپتالوں میں کروڑوں روپے کی مشینری موجود ہوتی ہے جو کسی بھی بڑی سے بڑی لیبارٹری میں موجود نہیں ہوتی مگر بعض جگہوں پر لیبارٹری کا عملہ جان بوجھ کررپورٹ غلط بناتا ہے یا بعض ڈاکٹر اس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتے ہیں تا کہ مریضوں کو نجی لیبارٹری میں بھیجا جا سکے،جس کی وجہ سے سرکاری ہسپتالوں میں پہلے سے بے بس مریض کو بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب بھی اس حوالے سے بہت کچھ کرنا ہے اور حکومت جس قدر بھی کوششیں صحت سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے کرے وہ تب تک نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوں گی جب تک ان کی باقاعدگی کے ساتھ مانیٹرنگ نہ ہو۔