تعلیمی ماحول میں اضطراب کی کیفیت

تعلیمی ماحول میں بے اطمینانی اضطراب اور مایوسی کی کیفیت کچھ اس طرح طاری ہوئی ہے کہ اگر نفسانفسی کا عالم کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ٹیچنگ سٹاف نان ٹیچنگ سپورٹنگ عملہ اور ایڈمنسٹریٹو یا انتظامی کیڈر کے ملازمین تینوں مایوسی اور بے یقینی کا شکار نظر آرہے ہیں ملازمین میں سے اساتذہ اور نان ٹیچنگ سٹاف تو خیروقتاً فوقتاً اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں البتہ ایڈمن سٹاف یا آفیسرز کا ردعمل دبے لفظوں تک محدود رہتا ہے یہ بات اپنی جگہ کہ ان کی بھی ایک یونین یا ایسوسی ایشن قائم ہے تاہم رجسٹرار اوورٹریژرر جیسے عہدوں پر فائز افسران شدید ردعمل کے اظہار سے گریز کرتے ہیں ایسے میں اساتذہ کی صوبائی تنظیم فپواسا کی کال پر ابھی حال ہی میں 16نومبر کو اساتذہ نے بازوؤں پر کالی پٹیاں باندھ کر علامتی احتجاج کیا جبکہ ساتھ ہی23نومبر کو ملاکنڈ یونیورسٹی میں جنرل باڈی کی کال بھی دیدی ان کا مطالبہ ہے کہ بجٹ میں تنخواہوں میں 10فیصد اضافے اور الاؤنسز سے اساتذہ کی محرومی بلاجواز ہے کیونکہ جواعلان بجٹ میں ہو جائے اسکی منظوری کیلئے فنانس اینڈ پلاننگ کمٹی اور سنڈیکیٹ میں جانا بالکل بھی ضروری نہیں مگر اس میں یونیورسٹی انتظامیہ بے چاری کیا کر سکتی ہے کہ جب حکومت نے یہ بلاجواز شرط انکے سامنے رکھ دی ہے؟ یہی مطالبہ اور بے چینی نان ٹیچنگ سٹاف کی بھی ہے جبکہ ایڈمن سٹاف کا کہنا ہے کہ انکی چالیس فیصد سے زائد پوسٹیں خالی پڑی ہیں لہٰذا زیادہ کام کا بوجھ انکے کندھوں پر ڈال دیاگیا ہے  پشاور یونیورسٹی کے اساتذہ اسلئے بھی بے چین ہیں کہ انکے مطابق فیکلٹی کی ترقیوں کا کیس2015ء سے لٹکا ہوا ہے ترقی کے حقدار اساتذہ میں سے نصف سے زیادہ نشستوں پر سلیکشن بورڈز بھی ہوئے ہیں مگر اسکے باوجود تاحال سنڈیکیٹ کے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا گیا جامعہ کے ایک درجن سے زائد اساتذہ تو امسال ریٹائرڈ ہوئے جن میں متعدد وہ ٹیچرز بھی شامل رہے جو ترقی کے حقدار اور اس کے منتظر رہے یونیورسٹی ملازمین کا موقف ہے کہ اصلاحات کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کوئی آکر ان سے رہا سہا حق اور سہولت چھین لے اور غریب کلاس تھری اور کلاس فورتو کیا متوسط طبقے کیلئے بھی ناقابل برداشت مہنگائی کے باوجود انہیں کچھ بھی نہ دے۔ مطلب یہ کہ یونیورسٹی کے سکولز کالجز اور شعبہ جات میں انکے بچوں سے مفت تعلیم کی سہولت چھین کر فیسیں مقرر کردی گئیں اور ساتھ ہی مختلف الاؤنسز میں کٹوتیاں کی گئیں جبکہ دوسری جانب حکومت کی طرف سے اعلان کردہ آٹے میں نمک کے برابر اضافے اور بعض نام کی حد تک الاؤنسز سے نصف سال گزرنے کے باوجود اساتذہ اور نان ٹیچنگ ملازمین محروم ہیں اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین کی واضح اکثریت کا شکوہ ہے کہ اصلاحاتی اقدامات اور فیصلوں میں انہیں اعتماد میں لینے کی بجائے چند افراد کی ایماء اور مشاورت سے بند کمرے میں ہونیوالے فیصلے ان پر مسلط کئے جاتے ہیں۔ یونیورسٹی ملازمین کے گلے شکوے بے اطمینانی اور ردعمل اپنی جگہ دیگر میرے نزدیک تو اس وقت بڑے اور بنیادی مسائل دو ہیں۔ایک مالیاتی ابتری جس کی وجوہات کسی سے پوشیدہ نہیں جبکہ دوسرا مسئلہ نظم و ضبط یا ڈسپلن کا فقدان ہے ایسے میں خود احتسابی کے احساس کا جاگنا ناگزیر ہوتا ہے اگر ہر کوئی تنہائی میں اپنے آپ سے یہ سوال کرلے کہ کلاس فور  سے لیکر کلیدی عہدے تک یونیورسٹی ملازمین اپنے فرائض بطریق احسن انجام دے رہے ہیں؟ ڈسپلن کے فقدان اور کیمپس میں نظم و ضبط نام کی کوئی چیز نظر نہ آنے کے اس موجودہ عالم میں پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے انتخابات بھی ہونیوالے ہیں جن میں حریف گروپ مدمقابل ہیں اس موزوں موقع پر اساتذہ گروپوں سے یہ سوال بے جا نہ ہوگا کہ جامعہ کی مالی ابتری‘ ٹریفک سسٹم اور صفائی کی حالت کی تباہی سبزہ زاروں کی حالت زار جبکہ بھکاریوں‘ بگڑے ہوئے ریئس زادوں  کی سکریچنگ اور ون ویلنگ اور ساتھ ہی دھوئیں شور‘ تیز رفتاری‘ پریشر ہارن اور ہراسمنٹ  جیسے مسائل کا حل ان کے ایجنڈے میں شامل ہے یا نہیں؟ اساتذہ کی اکثریت کا ایک ردعمل یہ بھی سامنے آتا ہے کہ سنڈیکیٹ میں انکی نمائندگی کی نشستیں نصف سے زائد خالی پڑی ہیں جبکہ انتظامیہ کی جانب سے اس پر انتخابات کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں اسی طرح تدریسی شعبہ جات کے سربراہوں کی نمائندگی کی نشست کہ ہونیوالے الیکشن کو عین موقع پر ملتوی کر دیا گیا ان حالات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ باہمی اعتماد اور تعاون کے فقدان کی اس موجودہ فضا میں یہ کہنا محض خوش فہمی ہوگی کہ جامعہ کا مستقبل روشن ہوگا یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ شاید وہ وقت بہت دور نہ ہو کہ یونیورسٹی کیمپس بالخصوص پشاور یونیورسٹی کم از کم ملکی سطح پر بے ہنگم اور آلودہ مقامات میں سرفہرست ہو جائے‘ یہ اٹل حقیقت ہے کہ جب تک حقوق اور فرائض میں توازن نہ ہو تب تک جامعہ مسائل کی آماجگاہ رہے گی۔