کردار کی خوبیاں 

یہ ای میل کینیڈا سے موصول ہوئی تھی جس میں کئی ریلیف آرگنائزیشن کی طرف سے عید باسکٹ تحفہ دینے کے بارے میں تاکید کی گئی تھی۔ مغرب کے ممالک میں غریب لوگوں  کو بچا ہوا سالن اور پھٹے پرانے کپڑے دینے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ عید باسکٹ میں ڈالنے والی چیزوں کے بارے میں واضح ہدایات تھیں کہ اس میں زیتون کا تیل، چاکلیٹ،  بسکٹ، جوسز، خشک دودھ، خشک میوہ جات اور نئے کپڑے ہونے چاہئے۔ ای میل تو اس قسم کی آتی رہتی ہیں‘آج اس سوچ کی بات کرنا چاہتی ہوں جو اس ای میل کے پیچھے موجود ہے۔ بیرون ممالک ہمارے مسلمان بہن بھائیوں نے ایسی ایسی انجمنیں بنائی ہوتی ہیں جو مستحق افراد کی مدد ان کے دروازے پر جا کر کرتی ہیں۔ وہاں غریب بھیک نہیں مانگتے۔ اپنے آپ کو غریب ظاہر کرنے کیلئے پھٹے ہوئے کپڑے بھی نہیں پہنتے۔ یہی فرق قوموں کے درمیان ان کی ترقی اور عروج کی ایک طویل داستان ہے جس سے تاریخ بھری پڑی ہے، مجھے جس نے ای میل بھیجی ہے میں اس کو جانتی ہوں وہ ایک ایسی آرگنائزیشن کی سربراہ ہے جو زکوٰۃ خیرات مستحق افراد تک ضرور پہنچائے گی اور ایسے مستحق افراد جو صرف وہی چیز لینا پسند کریں گے جس کی انہیں ضرورت ہوگی اور شکریہ کہہ کے آگے بڑھ جائیں گے تاکہ دوسرے کو اس کا حق ملے جائے۔ شاید حقیقی تو کل کی دولت سے یہی لوگ مالامال ہیں جن کو ذخیرہ کرنے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ ان کی بھوک صرف آج تک محدود ہوتی ہے۔ اسی لئے کل اللہ تعالیٰ ان کے دروازے پر خود دستک دلواتا ہے۔ ذخیرہ کرکے اس نیت سے اشیاء خوردنی چھپا لینا کہ بعد میں اس کو نکال کر بیچیں گے تاکہ ان کا پہلا مال مہنگا بک جائے۔ لیموں چھپا لینا، چینی چھپا لینا، اشیاء خوردونوش کو عوام الناس سے دور کرکے ان کی مانگ میں اضافہ کر دینا۔ یہ پست ذہنیت کے مالک کی سوچ ہے۔ جس کی لالچ کی کوئی انتہا نہیں ہوتی۔ لوگ اپنے زکوٰۃ، صدقہ دیتے ہوئے ایک عجیب سے شک و شبے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مستحق لوگ چھپ جاتے ہیں ان چہروں کے پیچھے جو پیشہ ور ہوتے ہیں۔ ملک تباہ ہو۔ برباد ہو۔ ادارے تباہ ہو جائیں برباد ہو جائیں ہم صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اگر میرے پاؤں پر کسی کا پاؤں آجائے تو قیامت اسی وقت ٹوٹے گی۔ میں نے کبھی اپنے وطن کو۔ اپنی سرزمین کو، اپنی ماں دھرتی کو اپنا سمجھا ہی نہیں۔اگر کوڑا پھینکنا ہے تو سڑک حاضر ہے۔ اگر گندگی پھیلانے کو دل چاہتا ہے تو نالیاں نالے اور بہتے ہوئے پانی کی نہریں اور کٹھے حاضر ہیں۔ یقین کریں کوئی بھی نہیں پوچھے گا۔ کوئی ایسا ہاتھ آپ کو روک نہیں سکتا جو ہاتھ کیساتھ ساتھ آنکھ بھی رکھتا ہو۔ کیوں کہ اس ہاتھ اور آنکھ رکھنے والے شخص کو معلوم ہے کہ میرے روکنے سے میرا انجام کیا ہوگا ہم بے حس، لا تعلق، حالات پر تمسخر اڑانے والی اک خلقت میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ مغرب میں لوگ تیز رفتار ہیں۔ لیکن وہ پوری طرف اپنے ارد گرد سے باخبر ہیں۔ اپنے حالات سے اور اپنے فرائض سے با خبر ہیں۔ ایک بہت بڑے اور خوبصورت پارک میں ہم نے آدھا دن گزارا۔ باربی کیو کیا، بچوں سے زندگی کی خوشیوں کو متعارف کروایا اور اس پارک میں بے شمار خاندان، ہماری طرح ہی بے فکری سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہ اس لئے کہ ان کی جان مال عزت و آبرو محفوظ تھی۔ جب شام کے سائے ڈھلنے لگے تو شاید ہماری فیملی سب سے آخر میں اس پارک سے نکلی۔ میں نے پارک پر نظر ڈالی پارک ایسے صاف ستھرا تھا جیسے میں نے صبح داخل ہوتے وقت دیکھا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند سٹوڈنٹس سارے پارک میں پھیل گئے ان کے ہاتھوں میں کالے رنگ کے بڑے بڑے شاپر تھے انہوں نے خود بھی ہاتھوں پر دستانے پہنے ہوئے تھے۔ بڑی مہارت اور چابکدستی سے بہت بڑے بڑے کوڑا دانوں سے پہلے سے گند کے بھرے ہوئے لفافوں کو گرہ لگائی اور نئے لفافے ان کوڑا دانوں پر چڑھا دیئے۔ ایک کے بعد دوسرا اور وہ تمام معمولی معاوضوں کے عوض یہ کام کر رہے تھے اس لئے کہ یہاں کی ثقافت اور تہذیب ہے۔ ان میں زیادہ تر لڑکیاں تھیں اور ایسی خوبصورت اور کالج یونیورسٹی کی طالبات کہ ہمارے ملک میں ایسی سوچ ہی نہیں ہو سکتی کہ ہم یونیورسٹی کالج میں پڑھنے والے کوڑے دان صاف کریں۔ اپنے ملک و قوم کی محبت اگر دل میں گامزن ہو جائے تو پھر باہر کی بدبو انسان کے اندر کی خوشبو کو ختم نہیں کر سکتی۔ ہم نے کیوں قسم کھا رکھی ہے کہ ہم صرف حکومتی کارکنان کا انتظار ہی کریں گے اور اپنا کام خود نہیں کریں گے۔ مجھے آج بھی یقین ہے کہ میں اپنی آبائی گلی میں پشاور شہر میں چلی جاؤں تو گلی کی نکر پر کوڑے کا بڑا ڈھیر میرا منہ چڑائے گا۔ پرانے زمانے میں جمعدار سسٹم تھا جو گھر کے اندر سے آکر کوڑا اٹھا کر باہر ڈمپ کرنے کا کام کرتا ہے۔ ماشکی سڑکوں پر اندھیرے میں چھڑکاؤ کرتے تھے۔ صفائی ستھرائی کا خیال کیا جاتا تھا صرف وہی لوگ زکوٰۃ خیرات لینے کے روادار ہوتے تھے جن کو واقعی ضرورت ہوتی تھی۔ بہت زیادہ سفید پوش ہو اپنے چہرے سے اور اپنے لباس سے کسی کو شک بھی نہیں ہونے دیتے تھے کہ ان کو واقعی راشن کی ضرورت ہے۔ شاید ہم لوگ ہر بات میں بے باک ہو گئے ہیں اپنی رائے دینے میں۔ دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کرنے میں۔ دوسروں کو برا بھلا کہنے میں۔ جھڑک کے خاموش کروانے میں اور سب سے بڑھ کر دھکا دینے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں رہا پھر ہم توقع کرتے ہیں کہ ہم ترقی کریں۔ ہمارے سکول اچھے ہو جائیں ہمیں روزگار مل جائے۔ ہمیں سستی اشیاء میسر ہوں ہم خوشحال ہو جائیں۔ خوشی اور امید تو ان خوبیوں میں ہے جو نہ جانے کب ہم سے چھن گئی ہیں۔ ان خامیوں کے ساتھ ہمارے حالات ہمارا پیچھا کیوں چھوڑیں گے بھلا……ضرور سوچئے گا۔