استاد کی عمر 76بر س ہے شاگرد 32بر س کا ہے استاد نے کار ل مارکس کو 1968ء میں پڑھا تھا شاگرد نے 2010میں کار ل مارکس کو پڑھا، چی گویرا کو اپنا آئیڈیل بنا یا پھر لینن اور ما زو ے تنگ سے لیکر فیڈل کا سترو تک ہر سامراج دشمن کو اپنا آئیڈیل قرار دیا ایک بڑے ادارے میں اہم عہدے پر فائز ہے استاد کے ساتھ اکثر بحث و تکرار کی نوبت آتی ہے جب پا کستا نی سو سائٹی‘ ملکی سیاست اور معیشت کا ذکر آتا ہے تو شاگرد کا پارہ چڑھ جا تا ہے استاد کہتا ہے زندگی اعتدال کا نام ہے‘ اعتدال سے جو ہٹ گیا زندگی کی لذت سے محروم ہوا، شاگرد کہتا ہے یہ بھی کوئی زندگی ہے ایک شخص کار خا نے کا ما لک ہے دوسرا شخص اسی کار خا نے میں مزدوری کر تا ہے مہینے کے آخر میں ما لک 2ارب روپے کما تا ہے مزدور کو 20ہزار روپے ملتے ہیں یہ بھی کوئی زندگی ہے ایک شخص افسر ہے اُس کو گاڑی ملی ہے ڈرائیور ملا ہے، سجا سجایا گھر ملا ہے دوسرا شخص دربان ہے وہ سائیکل پر دفتر آتا ہے یہ بھلا کونسی زندگی ہے؟ استاد کہتا ہے کتا بی دنیا سے با ہر آجا ؤگے تو تمہا را واسطہ عملی دنیا سے پڑے گا عملی دنیا میں سر ما یہ دار اور آفیسر کی بھی ضرورت ہے، جج اور جرنیل کی بھی ضرورت ہے، مزدور، ڈرائیور اور در بان کی بھی ضرورت ہے سب کو مزدور بنا ؤگے تو انتظام اور اہتما م کون کرے گا؟ سب کو سر ما یہ دار بنا ؤ گے تو راج، مزدوراور مستری کہاں سے لاؤ گے؟ شاگرد نہیں مانتا وہ کہتا ہے شہر کی بڑی عما رتیں چند لو گوں کی ملکیت کیوں ہیں؟ ملک کی زمینوں پر چند خاندانوں کا قبضہ کیوں ہے؟ استاد کہتا ہے یہ فطرت کا اصول ہے لینن اور سٹا لن نے اس اصول کی نفی کی تو لوگ قحط سے دوچار ہوئے۔ گوربا چوف کو 70سال بعد فطرت کے اصولوں کی طرف رجوع کر کے ملک کو بچا نا پڑا۔ماؤ اور فید ل کا سترو نے فطرت کے اصو لوں سے انحراف نہیں کیا ان کا نظام بدلتے حا لات کے ساتھ خود بخود بدلتا رہا۔ یہ فطرت کا اصول ہے کہ اعتدال دیر پا ہو تا ہے افراط و تفریط کی عمر مختصر ہو تی ہے۔ شاگرد نے عالمی ادب کا مطا لعہ ایک مخصوص عینک کے ساتھ کیا ہے اس لئے وہ ”ففتھ جنریشن وار“ جیسے جدید نظریات کا قائل نہیں وہ اس بات کا بھی قائل نہیں کہ دشمن نے ملک کو نقصان پہنچا نے اور قومی وحدت کو کمزور کرنے کیلئے مختلف گروہوں کے در میان نفرت کی دیوار یں حا ئل کر رکھی ہے۔ شاگر د کی نظر میں آدھا گلا سی خا لی ہی ہو تا ہے وہ نہیں ما نتا کہ دشمن نے نفرت کی دیوار حا ئل کر کے لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا، سیا ست دانوں کو ایک دوسرے سے بد ظن کر دیا۔ کوچہ وبازار میں ڈاکٹر وں، انجینئروں، اعلیٰ انتظا می آفیسروں، سرما یہ داروں اور جا گیر داروں کے خلاف نفرت آمیز گفتگو کی داغ بیل ڈال دی‘ استاد کو پس منظر کی یہ کاروائیاں نظر آتی ہیں مگر شاگرد کو نظر نہیں آتیں وہ آئیڈیل کی تلا ش میں سب کچھ داؤ پر لگانے کو تیار ہے کیونکہ اُس نے انقلا بی لٹریچر پڑھا ہے۔ مذاق تھوڑی ہے استاد اور شاگرد کے درمیاں خیالات کی یہ کشمکش آج کل گھر گھر کی کہا نی ہے لیڈروں کے بیا نات اور سیا سی افراتفری سے اس کشمکش میں روز بروز اضا فہ ہو رہا ہے اس کشمکش کا بنیا دی مسئلہ آدھا گلا س ہے آدھا گلا س خالی کی جگہ پر نظر آئے تو کشمکش ختم ہو گی۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی