دل میں امید کا جذبہ

ہمارا معاشرہ کچھ عجیب قسم کی مایوسی کا شکار ہو رہا ہے جیسے انہوں نے دل میں ٹھان لی ہے کہ اب حالات اچھے نہیں ہونگے۔ مغرب کی کرنسی بہت مہنگی ہے یہاں کئی روپے مل بھی جائیں تو ان کے ایک ڈالر کا مقابلہ کرتے ہوئے پاگل ہو جاتے ہیں اس لئے تنخواہیں بہت کم ہیں لیکن میں نے بمشکل ہی کینیڈا میں کوئی شخص  بے روزگار دیکھا ہے بلکہ جو گھر بیٹھی ہوئی خواتین ہیں جن کے شوہر اچھا کما لیتے ہیں وہ بھی اپنی زائد انکم بنانے کیلئے کچھ گھنٹے روزگار کرلیتی ہیں مغرب میں حکومتوں کا سیٹ اپ ایسا ہوتا ہے کہ نوکریوں کا بوجھ صرف حکومتوں پر نہیں پڑتا۔کھانے پینے کے‘ گروسری بیچنے کے وسیع و عریض سٹور‘ کارخانے اور دوسرے کئی بزنس ہر وقت نوکریوں کیلئے کھلے ہوتے ہیں مغرب میں نوکری کھو جانا سب سے زیادہ عام ہے آپ کو کچھ پتہ نہیں کہ کل آپ کی نوکری رہے گی یا نہیں۔لیکن آپ کو یہ پتہ ہے کہ اگر نہیں رہے گی تو دوسری مل جائے گی۔سسٹم ایسا کھرا اور سچا ہے۔پھر قائدین کی محب وطنی اور انسانیت سے محبت نے ان اقوام کے ڈھیر سارے مسائل حل کر دئیے ہیں۔ بچوں کی جو قدرومنزلت محبت اور پیار مغرب میں ہے وہ مشرق والے نہیں سوچ سکتے۔ اسلام آباد میں میری متوسط طبقے کی ایک ہمسائی سے بات ہو رہی تھی پوچھا بچے سکول نہیں جاتے۔کہنے لگی سرکاری سکول میں اساتذہ بہت مارتے ہیں بچے صبح اتنا روتے ہیں کہ سکول نہیں جانا اور پرائیویٹ سکول کی پرنسپل داخلے کے جو روپے مانگتی ہے  وہ اس کے پاس نہیں  ہیں اور شاید کبھی بھی نہیں ہونگے اس نے بڑے دکھ سے کہاکہ اسکو بھی تعلیم کا بڑا شوق ہے لیکن میری بیٹی کے بوٹ کالے نہ ہونے کی وجہ سے وہ سارا سارا دن کلاس میں کھڑی رہتی تھی گھر آکر وہ بیمار ہو جاتی تھی اب وہ گھر میں رہتی ہے چھوٹے بہن  بھائیوں کو سنبھالتی ہے اور خوش ہے۔اگر بچوں نے کالے بوٹ نہیں  پہنے سردی کا نیلا سوئیٹر نہیں پہنا تو یہ کوئی بھی بڑی بات نہیں کم از کم بچوں  کے مالی حالات سے استاد کو آگہی ضرور رکھنی چاہئے اور پھر اس کے دل میں انسانیت کا درد ہونا چاہئے کہ وہ سوچ سکے کہ جس ماں باپ کے گھر4بچے ہیں ان سب کی اشیاء پورا کرنا کتنا مشکل ہے اور پھر بچے لمبے ہو رہے ہیں ہر وقت ہی ان کے پاؤں لمبے ہو کر پہلا جوتا چھوٹا کردیتے ہیں کاش  ایسی کمیٹیاں بن جاتیں جس میں اپنے گلی محلے کے سکول‘ ہسپتال‘ ڈسپنسری وغیرہ کی دیکھ بھال کرنے کا نظام مرتب ہو جائے۔ کب تک ہم حکومتوں کی راہ دیکھتے رہیں گے کہ وہ آکر ہمارے حالات اچھے کرینگے یا ہمارے اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے لوگ آکر ہمیں دیکھیں گے۔ جب تک ہم اپنی آبادیوں پر قابو نہیں پاتے ہمارے مسائل بھی افراد کے لحاظ سے بڑھتے رہیں گے۔ مغرب کی خوشحالی کی بہت بڑی وجہ ان کی کم آبادی بھی ہے وسائل زیادہ ہیں اور ان کو لینے والے کم لوگ ہیں جب کہ ہمارے معاشروں میں وسائل محدود ہیں اور ان کو استعمال کرنے والے بہت زیادہ ہیں۔جیسے ایک کمرہ دو لوگوں کیلئے ہوا اور اسکو20لوگ استعمال کرتے ہوں بحیثیت شہری ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم اپنے ملک کیلئے مفید ثابت ہوں نہ صرف اپنی آمدنی کا ایک فیصد حصے میں اپنے غریب ہمسایوں اور رشتہ داروں کو شامل کریں بلکہ اپنے قول فعل سے اپنے ملک کو بھی ایک فیصد ہی سہی فائدہ پہنچائیں اور یہ قطعی نہ سمجھیں کہ آپ کے ایک فیصد سے کیا ہوگا ایک فیصد سے ایک شخص کو ہی فائدہ ہوگا۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ مایوسی گنا ہے انشاء اللہ ایک دن ہماری نسلیں بھی خوشحال قوم کہلائے گی جب بھی میں لوگوں کو بے لوث مدد کرتے ہوئے دیکھتی ہوں بہت خوشی کا باعث بنتا ہے یہ روایت مشرق میں ہی ہے اور مغرب اس سے محروم ہے کہ ہم لوگوں کے دکھ سکھ سنتے ہیں مغرب کی مہلک بیماریاں اس بات کی غماض ہیں کہ وہ اپنے دلوں میں کیسے کیسے کربناک دکھ پال رہے  ہیں ہمارے ہاں رو دھو کر اپنے دکھڑے سنانے کا جو رواج ہے وہ کافی حد تک بیماریوں سے محفوظ کر دیتا ہے گیس کا سلنڈر بھرواتے ہوئے میں نے غریب سمجھ کر جب دوکاندار کی مدد کرنا چاہی تو اس نے یہ کہہ کر مجھے حیران کہ باجی میں صاحب حیثیت ہوں اپنا اور گھر والوں کا کھانا  پینا کرلیتا ہوں میرا فلاں دوست کافی مستحق ہے اگر آپ یہ مہربانی اس پر کردیں اسکی یہ بات مجھے حیرانگی کے ساتھ ساتھ روشنی کی لپک بھی دے گئی ابھی ہمارے ملک کے لوگ دلی اور ذہنی طورپر خوشحال اور آسودہ ہیں۔جس شخص کی سوچ ایسی مثبت اور قناعت پسندانہ ہو اس قوم کو کبھی کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا اس طرح کے پیارے جذبے دلوں میں امیدیں جگانے کیلئے مرہم کا کام کرتے ہیں۔