تغیرات کی دنیا کے حیرت انگیز اپارٹمنٹس لاپیڈریرا کے نام سے میڈرڈ میں موجود ہیں میڈرڈ سپین کا مشہور شہر ہے اور سپین کے ہی مشہور آرکیٹکیٹ گاؤڈی کے بنائے یہ اپارٹمنٹس جن کا نقشہ‘ ڈیزائن اور تعمیر دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے یہ وہ ماڈل گھر ہیں جو ایک حد درجہ آرٹسٹک ذہن و دماغ رکھنے والے انسان نے تخلیق کئے اور اسکے ایک ایک کونے کو آرٹ اور تعمیر کاشاہکار بنایا تاکہ ان گھروں میں رہنے والے لوگ خوشیوں کا لطف اٹھا سکیں سیاحوں کی ٹولیاں قطاردرقطار گاؤڈی کے اس نادر روزگار شاہکار کو دیکھنے آتی ہیں حکومت سپین کا ہر جگہ مکمل کنٹرول موجود ہے سیاحوں کو مختصر گروپ کی شکل میں لفٹ کے ذریعے اپارٹمنٹس کی اوپر کی منزلوں تک پہنچایا جاتا ہے خاموشی اور سکون کے ساتھ آرکیٹیکٹ کے دیوانے لوگ ان اپارٹمنٹس کی بناوٹ دیکھ کر حیران ہوتے رہتے ہیں۔ ہوا اور روشنی کا ان میں بہترین انتظام رکھا ہوا ہے دنیا والوں کیلئے یہ اپارٹمنٹس عجوبہ ہیں اس بلڈنگ کا تہہ خانہ اور سب سے اوپر بنے ہوئے میٹرس دیکھنے کے لائق ہیں اس میں قدرت کی رعنائی کے سامان رکھ دیئے گئے ہیں سیکورٹی اہلکار ہر جگہ تعینات ہیں نظم ونسق پوری طرح قائم ہے اٹھارویں اور انیسویں صدی میں شاید اللہ تعالیٰ نے دنیا کے ہر کونے میں جینسیس لوگوں کو پیدا کیا تھا یورپ‘ امریکہ‘ ایشیا‘ افریقہ ہر خطہ ارض میں سائنس‘ طب‘ فنون اور تعمیرات میں جتنی ترقی ہوئی اور انسانیت کو جو تحفے ان صدیوں میں ملے‘ آنے والی صدیاں ایسے انسانوں کی پیدائش سے خالی تھیں گاؤڈی کی ہی بنائی اک اور اہم تعمیر پارک گوئیل ہے اس پارک کو اپنے وقت کے لحاظ سے دور دراز علاقے میں بنایا گیا تھا اور اس کا مقصد اس دور دراز علاقے کو ترقی دینا تھا۔گاوڈی نے پارک میں ستونوں کی مدد سے مصنوعی چھت بنائی جو ایک بہت بڑے میدان کی شکل کی ہے تمام ستونوں کو کارخانوں کے ضائع کئے ہوئے ٹوٹے برتنوں اور ٹوٹی بوتلوں کے کانچوں سے بنایا اور سجایا گیاہے اس پارک کے ادگرد بے شمار درخت‘ پودے بیلیں اور مصنوعی ندی ندلے بنائے گئے جن کی مدد سے تمام درختوں اور پودوں کو خوبصورت ڈیزائن کی گئی نالیوں کے ذریعے سے پانی پہنچایا جاتا ہے اور یہ سلسلہ بس چلتا ہی رہتا ہے اس میں چند خوبصورت گھر بھی بنائے گئے ہیں اس وقت کے صاحب حیثیت لوگوں کو آفر کی گئی کہ وہ ان گھروں کو خریدیں ان میں رہائش اختیار کریں اور زندگی کو خوبصورت اور پر آسائش بنائیں کیونکہ کہ حکومت سپین کا مقصد اس ویران علاقے کو ترقی دینا تھا اس وقت بہت کم لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے چند ہی گھر فروخت ہوئے ان میں بھی لوگ آکر بس نہ سکے کیونکہ لوگ بنیادی طورپر شہروں کے اندر سہولیات کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ گھر نایاب ہوتے گئے اس وقت پارک گوئیل قومی ورثہ ہے لوگ ترستے ہیں کہ وہ یہاں رہیں لیکن اب ایسا نہیں ہو سکتا‘1992ء میں بارسلونا میں اولمپکس کھیل ہوئے تھے مغرب میں کسی ملک کو اولمپکس کے کھیلوں کی میزبانی کا نشہ چڑھ جائے تو وہ ان کیلئے فخر اور غرور بن جاتا ہے بار سلونا بھی اس میزبانی پر اب تک سرشار نظرآتا ہے۔ اگرچہ اس خوشگوار واقعے کو21/20 سال گزر چکے ہیں لیکن سپینش ان جگہوں کو ابھی تک یاد رکھے ہوئے ہیں جہاں دنیا بھر کے کھلاڑیوں کیلئے عوام نے اپنے اپنے گھروں کو خالی کر دیا تھا اولمپکس سٹیڈیم میں 25 ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش موجود ہے اولمپک مشعل اب تک اپنی پوری آن بان سے1992ء کی یادیں تازہ کر رہی ہے اور وہ سٹیلائٹ ٹاور بھی جہاں سے دنیا بھر کے صحافی اپنے ممالک کو اولمپک کی خبریں بھیجا کرتے تھے بارسلونا میں جو قابل فخر جگہیں میں نے دیکھیں وہ مائرو اور پکاسو میوزیم ہیں پکاسو وہ عظیم مصور جس کا ذکر ہمیشہ میں نے کتابوں میں پڑھا اس دیومالائی شخصیت کے بارے میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا ہے کہ اس کے ماسٹر پیس اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے گا ایک دو تین نہیں پورا میوزیم‘ حیرت انگیز‘ عقل کو دنگ کر دینے والا ہے۔ پکاسو کا اصل نام پابلو تھا پکاسو اس کی ماں کا نام تھا اپنی ماں سے بے انتہا محبت کی بناء پر وہ ہمیشہ اپنی تصاویر پر پابلوپکا سو لکھا کرتا تھا اور اسی نام سے تصویری نمائش کرواتا تھا بعد میں اسنے مستقل طور پر ”پکاسو“ نام کو ہی اپنالیا اس عظیم مصور کا ہر دور میں کیا ہوا کام پکاسو میوزیم کی گیلری میں موجود ہے ابتدائی طور پر پکاسو صرف چہرے بناتا تھا اور اس میں بھی اس نے شاہکار تخلیق کئے ہیں پھر پکاسو نے تجریدی آرٹ میں نام پیدا کیا کچھ عرصہ اس نے آرام کیا اس آرام کے دنوں میں بھی اپنی کرسی پر بیٹھ کر قدرتی حسن اور کبوتروں کی تصویریں بنائیں جوپکاسو کی یادگار تصاویر میں شمار ہوتی ہیں۔ کبوتر سپین کے ہر چوک میں دانہ چگتے ہوئے نظرآتے ہیں بھوک کے مارے ان کا دم نکلا جارہا ہوتا ہے۔ زمین پر بالکل آپ کے قریب آجاتے ہیں۔مبادا ان کو کھانا مل جائے۔دل چاہتا تھا پکاسو کے میوزم میں بہت زیادہ وقت گزاروں پکاسو کے بنائے ہوئےSculpturesکو بس دیکھتی رہوں آئیڈیا اور خیال کی بلندی ان عظیم فنکاروں پر ختم ہو جاتی ہے کیسے ذہین اور فطین لوگ تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگیاں دیکھنے کیلئے وقف کردی تھیں اور آج بھی دنیا بھر سے آئے ہوئے ان کے چاہنے والے ان کے عظیم شہہ پاروں سے فیض حاصل کر رہے ہیں۔ سپین عظیم ترین فنکاروں کا ملک ہے اس کے میوزیم اس کے پارک اس کی عمارتیں اور محلات دیکھ کر عظیم ترین فنکاروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہی وقت گزرتا ہے۔ زیتون پیداکرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک سپین میں سیاحت کی صنعت عروج پر ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
جب ایک پورا ملک پشاور میں آبسا
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
پانی پینے والا بارسلونا دوبارہ آئیگا
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
گھر بڑے اور دل چھوٹے
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو