’اومیکرون‘ میں ’ایچ آئی وی‘ کی موجودگی کی قیاس آرائیاں مسترد

جنوبی افریقی ماہرین نے کورونا کی نئی قسم ’اومیکرون‘ میں موذی وائرس ’ایچ آئی وی‘ کی موجودگی کی قیاس آرائیوں کو مسترد کردیا ہے تاہم ماہرین نے اس حوالے تحقیق بھی شروع کردی ہے،تاکہ اومیکرون متعلق بروقت تفصیلی طور پر جانا جاسکے۔

’اومیکرون‘ کا پہلا کیس گزشتہ ماہ 26 نومبر کو جنوبی افریقہ میں دریافت ہوا تھا، جسے اب تک کی سب سے متعدی قسم قرار دیا جا رہا ہے اور مذکورہ قسم دنیا کے 80 سے زائد ممالک تک پھیل چکی ہے۔

’اومیکرون‘ کے پیش نظر متعدد یورپی، افریقی، ایشیائی اور امریکی ممالک نے نئی پابندیوں کا اعلان کیا ہے اور تاحال مذکورہ قسم سے متعلق اہم ڈیٹا دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے اس متعلق قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں۔

’اومیکرون‘ سے متعلق یہ قیاس آرائیاں بھی پھیل رہی ہیں کہ اس میں ممکنہ طور پر ’ایچ آئی وی‘ وائرس کی موجودگی بھی ہے، جس کے بعد وہاں کے ماہرین نے تحقیق شروع کردی۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق جنوبی افریقی ماہرین نے ابتدائی طور پر اس تاثر کو مسترد کردیا ہے کہ ’اومیکرون‘ میں ’ایچ آئی وی‘ وائرس کی موجودگی ہوگی، تاہم اس کے باوجود انہوں نے اس پر تحقیق شروع کردی۔

بعض ماہرین کا خیال ہے کہ چوں کہ جنوبی افریقہ میں 80 لاکھ افراد ایچ آئی وی کے مریض ہیں، جن میں سے ایک تہائی مریض موذی وائرس کی دوائیاں بھی نہیں لے رہے، اس لیے خیال کیا جا رہا ہے کہ ممکنہ طور پر ’اومیکرون‘ میں ’ایچ آئی وی‘ کے اثرات ہو سکتے ہیں۔

تاہم دوسری جانب جنوبی افریقی حکومت کے سرکاری ماہرین نے اس تاثر کو مسترد کیا ہے کہ ’اومیکرون‘ میں ’ایچ آئی وی‘ وائرس کے اثرات ہیں۔

سرکاری ماہرین کے مطابق اب تک دنیا بھر میں کورونا کی پانچ قسمیں دریافت ہو چکی ہیں جو چار مختلف خطوں سے سامنے آئیں، تاہم کسی بھی وائرس سے متعلق ات

نی منفی معلومات نہیں پھیلائی گئی، جیسی ’اومیکرون‘ پر پھیلا کر جنوبی افریقہ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ برطانیہ سے دریافت ہونے والی کورونا کی قسم ’ایلفا‘ سے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک کینسر کا شکار خاتون سے پھیلی تھی۔

تاہم اس قسم سے متعلق ایسی کوئی بات نہیں پھیلائی گئی تھی مگر ’اومیکرون‘ میں ’ایچ آئی وی‘ سے متعلق شکوک پیدا کیے جا رہے ہیں، جن پر مقامی ماہرین نے تحقیق بھی شروع کردی۔