توانائی کے سستے ذرائع کی تلاش

جدید دور میں کسی بھی ملک کی ترقی کا اندازہ وہاں پر تونائی کے استعمال سے لگایا جاتا ہے جس قدر توانائی کے ذرائع کی دستیابی فراوانی سے ہو تو اس قدر ملکی معیشت مستحکم ہوتی ہے اور عوام کی زندگی میں خوشحالی آتی ہے۔ یعنی معیشت کے استحکام کیلئے توانائی بحران کے خاتمے کی جانب ثمر آور اقدامات کی ضرورت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔دیکھا جائے تو  اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت دنیا بھر میں توانائی کے حوالے سے ممالک کے درمیان مقابلے کی فضاء ہے اورہر ملک کی کوشش ہے کہ وہ توانائی کے سستے ذرائع کو بروئے کار لائے۔ اس سلسلے میں وطن عزیز کی خوش قسمتی ہے کہ اس کو قدرت نے فیاضی کے ساتھ نوازا ہے۔ خاص کر پانی سے بجلی پیداکرنے کے سلسلے میں اگر سنجیدگی سے کوششیں کی جائیں تو سستا ترین توانائی کا یہ ذریعہ انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماضی میں توانائی کے سستے ذرائع کی بجائے مہنگے ذریعے یعنی پٹرول اور ڈیزل سے بجلی پیداکرنے کے منصوبے لگائے گئے جو اب عوام کے گلے پڑ گئے ہیں اور اس کا نتیجہ بجلی مہنگی ہونے کی صورت میں سامنے آیاہے۔دنیا بھر میں توانائی کے زیادہ ماحول دوست اور سستے ذرائع سے استفادہ کرنے کی روش چل نکلی ہے۔ شمسی توانائی اس سلسلے میں بطور خاص قابل ذکر ہے۔ جس سے کسی بھی ملک بجلی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے تاہم اس کیلئے مربوط اور منظم کوششوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ہمارے ہاں سارا سال دھوپ پڑتی ہے جس سے استفادہ کیاجائے تو بجلی کی کمی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور ہر کوئی خودکفالت کے اصول کے تحت اپنی ضروریات پوری کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔اس طرح ملک کے کئی حصوں میں ہوائی چکیوں کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بھی کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔ کراچی اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں کے ساتھ ساتھ دیگر میدانی علاقوں میں بھی ہوا سے بجلی پیداکرنے کے منصوبے لگانے کی ضرورت ہے۔ا ب جب بات ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی چل نکلی ہے تو کچھ تذکرہ باقی دنیا کاہوجائے کہ وہاں پر کیا صورتحال ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یورپی ممالک میں بجلی کی زیادہ تر ضروریات کو نئے ذرائع سے پورا کرنے کی پالیسی پر عمل کیا جارہاہے ۔متبادل توانائی کے ذرائع میں ہوا سے توانائی کا حصول اقوامِ عالم میں خاصا مقبول ہو چکا ہے۔ اس وقت اس شعبے میں مسلسل ترقی کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور یہ شعبہ نہ صرف  توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے میں معاون ہے بلکہ اس سے بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ایک اندازے مختلف ممالک میں وِنڈ انرجی سیکٹر میں ملازم افراد کی تعداد تیرہ لاکھ سے زائد ہے۔ اب اس شعبے سے متعلق تعلیم حاصل کرنے والے افراد کیلئے روزگار کے نئے مواقع جنم لے رہے ہیں۔ جرمنی میں اس سیکٹر کی توسیع نے بے شمار افراد کیلئے روزگار کے نئے دروازے کھول دئیے ہیں۔اس وقت مختلف ممالک میں لاکھوں افراد اس انڈسٹری میں ملازمتیں اختیار کیے ہوئے ہیں۔ انٹرنیشنل رینیوایبل انرجی ایجنسی کے مطابق ایشیا اس صنعت میں سبقت رکھتا ہے اور ایشیائی ممالک میں چین سب سے آگے ہے۔چین وہ ملک ہے، جہاں وِنڈ انرجی سیکٹر میں ساڑھے پانچ لاکھ افراد مختلف حیثیتوں میں ملازم ہیں۔یورپ میں سب سے زیادہ افراد جرمنی میں وِنڈ پاور سیکٹر میں ملازم ہیں۔ اس کے بعد برطانیہ، ڈنمارک اور نیدرلینڈز ہیں۔ یورپ میں قریب تین لاکھ چالیس ہزار افراد اس سیکٹر میں روزگار حاصل کیے ہوئے ہیں۔شمالی اور جنوبی امریکا میں بھی وِنڈ انرجی سیکٹر ترقی کر رہا ہے۔ اب تک ان دونوں براعظموں میں لاکھوں افراد کو ملازمتیں حاصل ہو چکی ہیں۔ صرف امریکہ میں ایک لاکھ بیس ہزار افراد نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔ برازیل اور میکسیکو میں بھی ہزاروں افراد وِنڈ پاور سیکٹر میں ملازمتیں اختیار کیے ہوئے ہیں۔روزگار کی بین الاقوامی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ مستقبل میں سب سے زیادہ ملازمتیں متبادل توانائی کے سیکٹر میں پیدا ہوں گی اور وِنڈ انرجی کی جانب زیادہ افراد مائل ہوں گے۔اب وقت آگیا ہے کہ وطن عزیز میں بھی تونائی کے متبادل ذرائع کی طرف توجہ دی جائے خاص کر شمسی اور ہوائی توانائی سے بھر پور استفادہ کیا جائے۔ توانائی کے یہ ذرائع جہاں ماحول دوست ہیں وہاں یہ سستے بھی ہیں۔