کسٹم کا عالمی دن

26جنوری کو دنیا بھر میں کسٹم کا عالمی دن منایا جا تا ہے چونکہ ساری دنیا مختلف ممالک میں بٹی ہوئی ہے اور وہ اپنی علیحدہ حدود کے اندر اپنے اپنے دستور کے مطابق ان ممالک کے شہریوں کیلئے قوانین مرتب کرکے نظام مملکت کے امور چلاتے ہیں۔محکمہ کسٹم کی تاریخ کچھ اس طرح سے ہے کہ پشاورمیں کسٹم کلکٹریٹ اینڈ سنٹرل ایکسائزکا قیام 1974میں آیا اور اس سے پہلے کلکٹر کسٹم اینڈ سنٹرل ایکسائز لاہور میں بیٹھتا تھا اور لاہور کلکٹریٹ ہی پشاور کو کنٹرول کرتی تھی جبکہ کوہاٹ سالٹ ہاؤس میں انگریزوں ہی کے زمانے سے ایک اسسٹنٹ کلکٹر تمام صوبے کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ 1996کو کسٹم اینڈ سنٹرل ایکسائز کو الگ کرکے سیلزٹیکس کلکٹریٹ کوعلیحدہ کر کے نئی کلکٹریٹ کا نوٹیفیکیشن کر دیا گیا اور اس طرح2013کو ٹرانزٹ ٹریڈ Adjudicationکو کوبھی کسٹم کلکٹریٹ سے علیحدہ کر کے ٹرانزٹ ٹریڈ پاکستان ڈائریکٹریٹ قائم کر دیا گیا۔ قیام پاکستان سے پہلے انگریزوں کے دور میں کسٹم ایکٹ 1872 ء اور لینڈکسٹم ایکٹ 1924 ء کے تحت کام کیا جاتا تھااس وقت سب سے پہلے بمبئی پورٹ بنائی گئی اور کراچی کو سندھ کیلئے پورٹ کا درجہ دیا گیا 1947میں جب پاکستان بنا تو کسٹم اور ایکسائز کا محکمہ وجود میں آیا جو کہ 1973میں کسٹم اینڈ ایکسائز میں تبدیل ہو گیا اور اس کے بعد 1990میں سیلز ٹیکس ایکٹ 1990وجود میں آیا۔ قیام پاکستان کے بعد اب صرف ایک ہی کسٹم ایکٹ1969 ء پر کام کیا جارہا ہے جس کے کل 224 سیکشنز ہیں۔ان سیکشنز میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں لیکن سیکشنز 224ہی ہیں۔اب ملک بھر میں کسٹم کا یکساں نظام رائج کر دیا گیاہے۔۔دراصل دنیا میں ہمیشہ ریاستیں 4 عناصر سے ملکر بنتی ہیں۔ (1) آبادی (2) علاقہ(3)حکومت(4) اقتدار اعلیٰ۔جب یہ چار عناصر مل جائیں تو ریاست وجود میں آتی ہے اس لئے اس ریاست کو چلانے کے لئے حکومت کا ہونا ان تینوں عناصر کے ساتھ ساتھ نہایت اہم ستون سمجھا جاتا ہے۔حکومت چلانے کے لئے وسائل درکار ہوتے ہیں اور یہ وسائل تب حاصل کئے جاتے ہیں کہ اس کی آبادی کیلئے اسی علاقے میں اقتدار اعلیٰ کے فیصلوں سے ایسی قوانین ترتیب دیئے جائیں کہ جن کی پاسداری سے نہ صرف آبادی کے تناسب سے وسائل پیدا کئے جا سکیں بلکہ بین الاقوامی طور پر ایک منظم لائحہ عمل بھی موجود ہو تاکہ ساری دنیا نہ صرف ایک دوسرے سے تعاون کریں بلکہ ایک گلوبل ویلج کا روپ اختیار کرکے پیش آنے والے مسائل کا مل کر اجتماعی حل بھی تلاش کریں۔صدیوں سے یہ ارتقائی عمل جاری وساری ہیں دنیا میں اس لئے آئے دن نت نئے ایجادات جنم لے رہے ہیں تاکہ ان کی بدولت پیش آنے والے چیلینجز کا مقابلہ ہو سکے۔ WCOبھی اسی دوڑ میں برابر شریک رہی یہ تنظیم دنیا کے تمام ممالک کی مشترکہ طور پر نمائندگی ظاہر کرکے وجود میں آئی ہے اور اسی کی وساعت سے دنیا کے تمام ممالک ایک دوسرے کے مشاہدات اور تجربوں سے بھر پور استفادہ کر رہے ہیں ہمارے ملک میں بھی کاروبار،لین دین،تجارت،درآمدات برآمدات، جرائم کے تبادلے، سمگلنگ کے روک تھام، منی لانڈرنگ وغیرہ کے لئے کبھی کاغذی کاروائی کا عمل رائج تھا آہستہ آہستہ ٹیکنالوجی کے دور شروع ہوا، مینول سسٹم ڈیجیٹل سسٹم میں تبدیل ہونا شروع ہوا، ابتداء میں ٹیکنالوجی کو رائج کرنے میں ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ آگر ٹیکنالوجی کے آلات ترقی یافتہ ممالک سے آبھی گئے مگر اس کے چلانے والے کم اور علاقائی پسماندگی، بجلی کی کمی آڑے آئی مگر دنیا کے ساتھ چلنے کے لئے ہمارے ادارے بھی آہستہ آہستہ نئی ایجادات کی مدد سے روشناس ہونے لگے۔ ایف بی آر نے 1988ء میں آٹومیشن کی ایک کمپنی”System Limited“ بنائی اسکی پروسیسنگ آئی بی ایم سسٹم 34مشین کے ذریعے کرائی اس سے Bill of Entryکو ”Good Declaration“میں تبدیل کرایا گیا جو تمام Collectoratesمیں رائج کیا گیا۔دسمبر 1992ء می آن لائن کمپیوٹر پراسیسنک آف بل آف انٹری شروع کروائی اور یہ کام 1999ء تک جاری رہا اور یوں سسٹم خود بخود ڈیوٹی وٹیکسزنکالتا جو KPOبل آف انٹری یاGDکی ہارڈ کاپی سسٹم میں فیڈ کرتا اور بنک پے آرڈر کو Verifyکرتا جو رقم وصول ہو جاتی اکاؤنٹ سسٹم کی ذمہ داری ہوتی کہ کنسائمنٹ کسٹم سے آڈٹ آف چارج تب ہو جاتا جب تمام ڈیوٹی وٹیکسز قومی خزانہ میں جمع ہو جانے کے لئے مطمئن کا سگنل دے دیتے۔1994ء میں ایف بی آر نے پرال کمپنی کو ذمہ داری سونپی اور اس کے علاوہ نئیAS-IBM400مشین متعارف کرواکر ڈیجیٹل پراسس کو مزید بہتر کروایا اس کے بعد ”ای فائلنگ“2001ء میں متعارف کرواکر اپنے ہی دفتر سے کنسائمنٹ کی انٹری ممکن بنالی اس کے بعد ہوتے ہوتے Pakistan Customs Computerized Systemجو بعد میں Web Based one Systemپر آکر ٹہرا۔ یہ ارتقائی عمل آزادانہ ت اور کم وقت میں زیادہ سے زیادہ ٹرانسیکشن کرانے کے لیے سود مند ثابت ہوا اور ہمیں بین الاقوامی تجربات ومشاہدات سے استفادہ حاصل کرنے میں کافی مدد ملی۔اس لئے WCOنے سال 2022ء کو کسٹم ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن اپنانے کے لئے وقف کر دیا ہے تاکہ Globallyایک دوسرے کے تجربات، انفارمیشن شیئرنگ،تجارت میں ہم آہنگی آسانیاں مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں پیش آنے والے نقصانات سے بخوبی جان کا ری حاصل کر سکیں۔چیئرمین ایف بی آرڈاکٹرمحمد اشفاق احمد کی سربراہی میں ایف بی آر نے ٹیکس دہندگان کیلئے کئی سہولتوں کا اجراء کرتے ہوئے نظام میں کافی اصلاحات متعارف کروائی ہیں جس کے باعث ٹیکس ادا کرنے اور ٹیکس وصول کرنے والوں کے مابین انڈر سٹینڈنگ کی فضاء اور دوستانہ ماحول نے جنم لیا ہے مزید بہتری لانے کیلئے ملک بھر سے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری، پاکستان افغانستان جائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری، پاکستان بھر کے تمام پرائم چیمبرز آف کامرس و دیگر بزنس کمیونٹی کی تنظیموں سے تجاویز لی جائیں۔ جس سے بزنس کمیونٹی کی طرف سے حکومتی اعتماد ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی، زرمبادلہ کے ذخائر اور سیلز ٹیکس میں قابل قدر اور نا قابل فراموش اضافہ ہوجبکہ محکمہ کسٹمز نے بین الاقوامی اور قومی سطح پر ترقیاتی مقاصد میں ہم آہنگی لانے کیلئے قابل تعریف کام کیے ہیں۔