پشاور کے کسی بھی بازار میں آجاؤں میں سکھ کا سانس لیتی ہوں مجھے دنیا کے کسی حصے میں شاپنگ کرنے کا ڈھنگ کبھی نہیں آتا میں بھول ہی جاتی ہوں مجھے کیا خریدنا ہے دراصل ہر شہر ہر ملک کے خریدوفروخت کے اپنے طریقے اور انداز ہوتے ہیں پشاور کو چھوڑے ہوئے مجھے دو تین دہائیاں تو ہو ہی چکی ہیں لیکن آج بھی کپڑا پسند کرنے اور خریدنے کا جو لطف پشاور صدر کی دکانوں پر آتا ہے اسکو دوسری جگہوں پر میں یاد ہی کرتی رہتی ہوں ہاں اس دوران اتنا کرتی رہتی ہوں کہ بس اپنی ضرورت کی اشیاء لکھتی رہتی ہوں اور لمبی لمبی فہرستیں بناتی رہتی ہوں اس دفعہ پاکستان آتے ہوئے بھی ایسا ہی ہوا میرے ہاتھ میں ایک فہرست تھی اور میں آرام سکون سے اپنی پسند کے لباس خرید رہی تھی نہ جانے ٹینشن اور بدحواسی یہاں کہیں دور بھاگ جاتی ہے چاہے میں اکیلی ہی کیوں نہ ہوں میں سکون سے پشاور میں ہر لباس خریدنے کی ہمت کو اپنے ساتھ ہی پاتی ہوں پھر مجھے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کے کھلونے کہاں ملتے ہیں،پنیر کہاں سے لونگی کہاں بیٹھ کر سکون سے فالودہ کھانا ہے پشاور کے فالودے کی بات ہی کچھ اور ہے کبھی قصہ خوانی بازار کا فالودہ کھایا تھا جو مدتوں نہیں بھولا کرتا تھا اور ہمیشہ میری فہرست میں دو کھانے کے آئٹم موجودہوتے تھے چپل کباب اور فالودہ‘ اسلام آباد کے ایک مشہور ریسٹورنٹ سے چپل کباب کی قیمت پوچھی بتایا گیا سات سو چھیاسی روپے کلو‘ لو یہ کیا بات ہوئی ہمارے پیارے پشاور میں تو یہ کباب صرف چار سو یا پھر ساڑھے چار سو روپے کلو ملتے ہیں بس پشاور تو دل کے قریب ہے کہ دنیا کی ہر نعمت میسر اور سستی بھی‘ انٹرنیٹ پر ایک گورے لڑکے کو فوڈسٹریٹ میں کابلی پلاؤ اور سری پائے کھاتے ہوئے اور مغربی دنیا کو دکھاتے ہوئے دیکھا تھا تب سے میری فہرست میں پشاور کی فوڈ سٹریٹ بھی شامل ہوگئی تھی دل چاہتا تھا کہ پشاورجاکر سب سے پہلے تو یہی سب کچھ کھانا ہے لیکن عید کے دوسرے دن پشاور آئی تو گرمی بھی وہاں پہنچ گئی پھر اس نے بھی قسم کھائی باہر نکلنے نہیں دینا‘ ہر بار میری کوشش ناکام ہوگئی میرے ساتھ جانے سے ہر کسی نے انکار کر دیا اور مجھے کہا کہ میں کب سے کھانے پینے کی اتنی دیوانی ہوگئی ہوں نتیجہ کباب گھر پر منگوالئے گئے اور یوں میرا خواب کہ دوکان پر بیٹھ کو یہ ایڈونچر کیا جائے گا نامکمل رہ گیا لیکن دل کو تسلی دی کہ چلو شام کو صدر میں فالودہ ہی کھالونگی کہاں قصہ خوانی بازار کا فالودہ اور کہاں صدر کا‘ چھوٹا سا پیالہ تھوڑا سا فالودہ کھا تو لیا لیکن وہ خوشی نہیں ملی جو پشاوریوں کے ہاتھوں کا بنا ہوا فالودہ دیتی تھی آج کل ہر جگہ نقل کا رواج ہوگیا ہے کپڑے اور کھانے اور باقی تمام اشیاء بھی مل ہی جاتی ہیں ایک طرح سے اچھا ہی ہے ہر طبقہ فکر کی خواہشیں اس سے پوری ہو جاتی ہیں پشاور کے بازاروں‘ گلیوں‘ محلوں میں گھوم پھر کر میری خود اعتمادی کئی گنا بڑھ جاتی ہے جیسے میں اپنے گھر میں واپس آگئی ہوں پشاور کی آبادی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے بس لوگ ہی لوگ نظر آتے ہیں رکشوں‘ گاڑیوں اور پیدل لوگوں سے بازار‘ گلیاں بھر گئی ہیں ہر انسان تیزی میں ہے بہت پہلے پشاور آہستہ چلتا تھا دھیرے دھیرے لوگ آرام سے تھڑوں پر بیٹھنا پسند کرتے تھے تانگے مخصوص میوزک کی لے کی طرز پر چلتے تھے دکاندار بھی خوش اخلاق ہوتے تھے ہر کوئی ایک دوسرے کو سلام کرنے میں پہل کرتا تھا خواتین کیلئے احترام سے کھڑے ہو کر ان کو راستہ دے دیا جاتا ہے اب پشاور بہت بدل گیا ہے تھڑے بالکل غیر آباد ہوگئے ہیں دکانیں بڑی اور ماڈرن ہوگئی ہیں بزرگ تو کہیں جاکر سوگئے ہیں ان کے بچے جوان ہو کر روایات بھی بزرگوں کے ساتھ دفناآئے ہیں عورت مرد برابر ہو کر قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں اور بہت سی ایسی باتیں جو آج سے دس پندرہ سال پہلے بھی پشاور کی خاص خوبیاں کہلاتی تھیں اب خال خال نظر آتی ہیں ان سب کے باوجود بھی پشاور اپنے اندر خاصی شان خاصی آن رکھتا ہے اپنائیت بھرا یہ ڈبگری ہے‘ یہ نوتھیہ ہے‘ اس طرف ڈین ہوٹل ہوتا تھا اب مارکیٹ بن گئی ہے یہ رستہ قصہ خوانی کو جاتا ہے وہ اندر گلی میں میرا سکول مدرستہ البنات ہوتا تھا یہاں اسی بازار میں میری پھوپھی رہتی تھی یہاں سے میں نے اپنی زندگی کی پہلی شاپنگ ایک چھت کا پنکھا خریدا تھا ملت فین‘ جو اس وقت کا مشہور پنکھا تھا یہ باٹا کی دکان تھی جہاں میں اپنے والد کے ساتھ صرف عید سے ایک دن پہلے جوتے خریدتی تھی سال میں ایک دفعہ کتنا رش ہوتا ہے تمام بچوں کو سیلز مین خود ایک چھوٹے سے سٹینڈ پر پاؤں رکھواتا تھا خود جوتا پہناتا تھا او چلنے کو کہتا تھا بس یادیں ہی یادیں‘ ہر سو بکھری ہوئی ہیں اپنی ٹیچرز کی اپنی دوستوں کی اپنے والدین کی‘ سکول کی‘ چھابڑیوں کی‘ ان پر کھانے پینے کی اشیاء بیچنے والوں‘ کالے کالے جامن کی آوازیں لگانے والے‘ گلاب کی بہار کے نام پر خوشبودار گلاب گلیوں میں لانے والے‘ جونکیں لگانے والے‘ برتنوں کو ٹانکے لگانے والے‘ قلعی کرنے والے‘ روئی کو گھروں کی چھتوں پر گلیوں میں بیٹھ کر پٹخنے والے اور وہ ہماری پردہ دار سادہ لوح مائیں ماسیاں جو ان کا انتظار کرتی تھیں اپنی شاپنگ کا شوق اور ضرورت انہی گلیوں اور محلوں میں آنے والے لوگوں کی چھابڑیاں اور ہنرمندی پورا کرتی تھیں بس پشاور آؤ تو یہ ساری یادیں بھی ساتھ ہی چلتی ہوئی آجاتی ہیں آنکھوں کو نم کرتی رہتی ہیں اور خوشیاں بھی دیتی رہتی ہیں ہمارا پشاور سدا آباد رہے ہم نہیں ہونگے ہمارے بچے‘ ہماری نسلیں اس کا نام روشن کرتی رہیں۔ آمین۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کی عید اور سادہ سی یادیں
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
پبلک مائن سٹیٹ آرکنساس امریکہ
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
محل سے کھنڈر بننے کی کہانی اور سر آغا خان
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو