تاریک موٹر وے کا سفر

عید کی خوشیاں گرمی کی حدت میں بھی عروج پر رہیں عید کا پہلا دن تو اپنے رشتہ داروں میں بھائیوں کے ساتھ ہی اچھا لگتا ہے جہاں دلوں کے جہان کئی گنا وسیع تر ہو جاتے ہیں نہ کوئی شور برا لگتا ہے اور نہ ہی چیخ پکار ورنہ بے تحاشہ کام کاج بدمزاج بناتا ہے دل چاہتا ہے کچھ اور شور ہو‘ کچھ اور قہقہے ہوں ایسے میں اپنے وہ دل کے قریب پیارے بہت زیادہ یاد آتے ہیں جو مٹی کے ڈھیریاں بسائے ہم سے چھپ گئے ہیں رمضان نے ہی ان کی یادیں ان کی آوازیں ان کی باتیں جیسے آس پاس پھرنا شروع ہو جاتی ہیں اور پھر چاند رات عید کے دن تو ہماری ہر خوشی کے ساتھ ہی وہ بھی موجود ہوتے ہیں اللہ پاک ان سب کے درجات بلند کرے‘ ایبٹ آباد کی موٹر وے پر گاڑی نے موڑ مڑا تو خوشی دوبالا ہوگئی ایک خوبصورت سڑک نے ہمیں خوش آمدید کہا یہ  صحیح ہے کہ ملک و قوم کی ترقی میں سڑکیں اہم بنیاد ہوتی ہیں اور پھر یہ سڑکیں کھلی کشادہ اور پکی ہوں تو شہر نہ صرف دوسرے شہروں سے رابطے آسان رکھتے ہیں بلکہ تجارت‘ آمدورفت کی بے پناہ سہولتیں بھی ملتی ہیں ترقی یافتہ قومیں انہی سہولتوں کے باعث زندگی کی آسائشیں حاصل کرتے ہیں مجھے بڑا تجسس تھا کہ ایبٹ آباد کی یہ بہت خوبصورت موٹر وے کون کون سے شہروں تک جاتی ہے اور ان کے فاصلے کتنے ہیں لیکن افسوس نیشنل  ہائی وے اتھارٹی کی جانب سے ایسی کوئی معلومات سڑک کے دونوں اطراف کہیں بھی درج نہیں تھیں اس طرح کے بل بورڈز اور بینرز سیاحوں کی معلومات کیلئے بے انتہا اضافہ کرتے ہیں ایبٹ آباد میں اک عرصے کے بعد ایک لنچ دعوت پر جارہی تھی اس سے پہلے میں نے ایک انتہائی چھوٹی سڑک پر یہ سفر کیا تھا جس پر دونوں طرف سے ٹریفک رواں دواں تھی اور ایسا گاڑیوں کا اژدھام تھا کہ کہیں بار میں نے اپنے عوام کے صبر حوصلے اور استقامت کی تعریف کی تھی۔شاید اس کا صلہ ایبٹ آباکے اس خوبصورت حسین نظاروں سے بھرپور موٹر وے کی صورت میں ملا تھا لیکن شاہ مقصود انٹرچینج پر یہ حسین سفر یکدم اختتام پذیر ہوا اور ہماری گاڑی دوبارہ ٹریفک کے ایسے طوفان میں گھر گئی جہاں اک طوفان بدتمیزی تھا تین تین لائنوں میں لوگ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی خواہش میں ساری ٹریفک کا نظام برباد کرنے میں پوری طرح کامیاب رہے تھے  ایک تو چڑھائی دوسرے ٹریفک جام اور بارش کے فوراً بعد نالوں‘ کھائیوں سے پھیلتا بدبودار دھواں‘ لوگوں نے سب سے آسان کام یہ کر رکھا تھاکہ گھروں دکانوں کا کوڑا ان حسین و جمیل نظاروں کی نذر کردیا ہوا تھا جو اب مہینوں بعد بدبودار بھبوکوں کی صورت میں ان ہی کے مزاج کو آزما رہا تھا ایک کھائی دور سے ایسی بھی نظر آئی جو کوڑے کا بہت ہی بڑا پہاڑ دکھائی دے رہا تھا اس کے اوپر ربڑ کے ٹائر رکھ کر اپنی طرف سے اسکو جلا کر راکھ کیاجارہا تھا کہ ربڑ کے دھویں اور گند کے پہاڑوں کی بساند نے ایبٹ آباد کے اس حسن کو ایسا گہن لگا دیا کہ سوائے ناک بند کر دینے سے بات نہیں بن رہی تھی اگر ہم نے اپنے ٹورازم کو فروغ دینا ہے تو ہمیں سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور حکومت اور عوام کو مل کر اس کا سدباب کرنے کے طریقوں پر غور کرنا ہوگا ایبٹ آباد کا ڈھائی تین گھنٹوں کا سفر سات گھنٹوں میں طے ہوا اور ہم اپنے میزبانوں کی بے پناہ مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوئے واپسی پر بھی آدھا سفر اسی تنگ راستے پر سفر کی مشقت میں گزرا میرے بھانجے نے ایک ماہر ڈرائیور کے طور پر جب گاڑی کو یکدم آدھے راستے سے موڑ لیا تو گہرے اندھیری سڑک پر میں نے پوچھ لیا گاڑی کیوں موڑ لی کہنے لگا موٹر وے آگئی ہے مجھے حیرت ہوئی سڑک پر موٹر وے پر مڑنے کیلئے کوئی لائٹ‘ کوئی بورڈ‘ حتی کہ ایک اچھا اور برابر موڑ بھی موجود نہیں تھا شاید وہ سیاح جو پہلی دفعہ ایبٹ آباد دیکھنے آئے ہونگے وہ یقینا اس موڑ کو بغیر دیکھے ہوئے سیدھا ہی چلے گئے ہونگے ان باتوں کا خیال رکھنے والے این ایچ اے کے حکام ذمہ دار ہیں موٹر وے اتنی اندھیری ہے اگرچہ ٹول پلاز ہ پر کوئی گاڑی بھی300-250 روپے نذرانہ دیئے بغیر نہیں گزر رہی اور شاید ایک دن کی آمدنی لاکھوں روپوں تک پہنچ جاتی ہوگی اگر ایک یا دو کلو میٹر کے فاصلے پر بھی سٹریٹ لائٹس لگادی جائیں تو یہ ترقی ہمیں زیادہ خوش کرے گی اور راستوں کو آسان بنائے گی یہی حال برہان سے پشاور کے آخر تک ہے دور دور تک تاریک اور اندھیری موٹروے اُداس نظرآتی ہے کتنی جگہوں پر میں نے کچھ مسافروں کو دیکھا جو گاڑیاں کھڑی کرکے ہاتھوں پر کھانا رکھ کے کھا رہے تھے ہو سکتا ہے ان کی ازحد مجبوری ہو اور اس طرح وہ سڑک پر بزرگوں یا بچوں کو کھانا کھلا رہے تھے چھوٹے چھوٹے ریسٹ  روم بھی بناتے جاسکتے ہیں تاکہ لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا ہوں اس کے باوجود بھی سڑکیں بنانے والوں کیلئے میرا خراج تحسین ہے پشاور کی عید کا اپنا ہی لطف ہے جی ٹی روڈ پر آئی تو اپنے بچپن کی عید یاد  آ گئی آج کے دن کی نسبت بظاہر وہ پھیکی اور بے رنگ ہوگی کیونکہ آج کے بچوں کی زندگی ہمارے بچپن کی نسبت زیادہ سہولتوں اور آسائشوں سے بھری پڑی ہے لیکن ہمیں تو اپنی وہ عید بھی کس قدر حسین لگتی تھی چاند رات کو ہماری واحد خوشی برتن میں گھلی ہوئی مہندی ہوتی تھی جو ماں ہم تینوں بہنوں کو ہاتھوں پاؤں پر  لگا کر کپڑے سے ہاتھ پاؤں لپیٹ دیتی تھی اور ہم اسی حالت میں سو جاتے تھے صبح بندھے ہوئے کپڑے ڈھیلے ہوئے ہوتے تھے ہم لنگڑا لنگڑا کر حمام کے نلکہ کے نیچے پیڑھی پر بیٹھ کر کپڑا کھولتے تھے اورپاؤں دھوتے تھے سرخ لال رنگ ہماری سادہ سی خوشیوں کو دوبالا کردیتا تھا مہندی کی خوشبو ہمیں سویوں کی یاد دلاتی تھی ایک بڑے لگن میں اُبلی ہوئی مزیدار سویاں بان کی چارپائی پر پڑی ہوتی ہمارا انتظار کر رہی ہوتی تھیں سویوں کے اوپر ہم شکر ڈالتے تھے چینی ڈالنے کا رواج تو بہت بعد میں زندگیوں میں داخل ہوا تھا اس شکر کا مزا اور مٹھاس اب تک نہیں بھولتی‘ شاید ہماری مائیں اپنے ہاتھوں میں ایسی لذت ذائقہ اور مٹھاس لئے رکھتی تھیں کہ بچپن آج تک ذہن کی یادوں میں موجود ہے زیادہ سے زیادہ عیدی بھی10روپے ہوتی ہے ورنہ ایک روپیہ2روپیہ ہی ہماری خوشیوں کو بام عروج تک پہنچا دیتے تھے  نمک منڈی میں لگے ہوئے جھولے شاید ہمیشہ ہی یاد رہیں گے کوئی خوف ڈر چھو کر بھی نہیں گزرتا تھا وہ بے رنگ اور عارضی جھولے ہمیں اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی سے بھرپور لگا کرتے تھے اور اپنی وہ قیمتی عیدی ہم جھولے کے مالک کی نذر کرکے‘ زندگی کی بھرپور خوشی مناتے تھے واپسی پر تیلوں اور لکڑی سے بنی ہوئی پمبھیریاں اور گڈیاں لے کر خوشی خوشی گھر واپس لوٹتے تھے جہاں شفیق ماں باپ ہمیں کھانے کھلانے گلے لگانے کیلئے ہماری راہ تک رہے ہوتے تھے ہم لوگ بار بار ہاتھوں پر مہندی کی بنی ہوئی مچھلیوں کو دیکھ کر عید کے دن کا احساس لئے خوش ہوتے تھے آج کئی برس بیت گئے ہیں میں پشاور میں ہوں عید کا دن ہے ماں باپ کی قبروں پر کھڑی ہو کر بہت سی پرانی یادیں آنکھوں میں آنسوؤں کی زبانی اپنے آپ کو خود ہی سنارہی ہوں۔