امریکہ کا غیرمنصفانہ رویہ

افغانستان پر نائن الیون کے حملوں کا ملبہ ڈالتے ہوئے امریکہ نے ہلہ بول دیا اور بیس سال تک لڑنے کے بعد جس حالات میں نکلا وہ تاریخ کا حصہ بن گیا ہے،ان لوگوں کے ساتھ معاہدہ کرکے بحفاظت نکلنے کیلئے کس حد تک گیا وہ دنیا نے دیکھ لیا۔ افغانستان کے چپے چپے کو تباہی سے دوچار کرکے جب امریکہ یہاں سے بوریا بستر لپیٹ کر جانے لگا تو ساتھ ہی افغانستان کے اربوں ڈالرمنجمد کرکے اسے مزید بے دست وپا کر دیا۔ حال ہی میں امریکہ ایک ایسا فیصلہ کیا جسے تاریخ میں سیاہ حروف سے لکھا جائے گا۔ ایک ایسے ملک کے اربوں ڈالر وہ نائن الیون کے متاثریں کو دے رہا ہے جن پر نہ تو حملہ افغانستان نے کیا تھا اور نہ ہی ان اربوں ڈالر پر ان کا کوئی حق تھا۔ امریکہ کے افغانستان کی منجمد رقم نائن الیون متاثرین کو دینے کے فیصلے پر افغان شہری سراپا احتجاج ہیں۔امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے افغانستان کے امریکہ میں منجمد سات بلین ڈالرز کی رقم میں سے نصف نائن الیون حملوں کے متاثرین کو دینے کے فیصلہ ہر لحاظ سے غلط ہے۔دنیا دیکھ رہی ہے کہ افغانستان میں عوام بنیادی ضروریات کو ترس رہے ہیں اور ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ایسے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل میں افغان شہریوں نے امریکی صدر جو بائیڈن کے اس فیصلے جو احتجاج کیا ہے ہو سمجھ میں آنے والی بات ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ جمعہ 11 فروری کو ایک صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس کے مطابق افغانستان کے امریکہ میں منجمد فنڈر میں سے نصف افغانستان میں انسانی ہمدردی کے کاموں کیلئے خرچ کرنے اور نصف رقم نائن الیون دہشت گردانہ حملوں میں متاثر ہونے والوں میں تقسیم کی جائے گی۔ امریکا میں افغانستان میں منجمد اثاثوں کی مالیت سات بلین امریکی ڈالرز سے زائد ہے۔امریکی صدر کے اس فیصلے پر افغانستان کے سابق سیاستدانوں عوام، اکیڈمکس اور طالبان نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ طالبان کے سینیئر ترجمان محمد نعیم وردک نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں لکھا، ''امریکی صدر کی طرف سے افغان قوم کی منجمد شدہ رقم کی چوری اور قرقی، ایک ملک اور ایک قوم کی اخلاقی زوال کی پست ترین سطح‘افغان عوام ان دنوں شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔سوشل میڈیا پر بہت سے افغانوں نے لکھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن مشکلات میں گھرے افغان شہریوں کا پیسہ چرا رہے ہیں اور یہ کہ اس عمل کا امریکہ میں دہشت گردی سے کسی طرح کا کوئی تعلق نہیں ہے۔نائن الیون حملہ آوروں میں کوئی افغان نہیں تھا۔یہ بات اہم ہے کہ 11 ستمبر 2001 کو امریکی شہر نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو مسافر طیاروں کے ذریعے نشانہ بنانے والوں میں کوئی ایک بھی افغان باشندہ شامل نہیں تھا۔ماہرین کا دعوی ہے کہ ہے امریکی صدر جوبائیڈن کی طرف سے منجمد شدہ اثاثوں کی اس طرح تقسیم افغان معیشت کیلئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ اپنے آپ کو تمام قواعد اوربین الاقوامی ضوابط سے بالاتر سمجھتا ہے اور ایک تو بلا وجہ کسی ایک ملک پر حملہ کرکے اسے تباہی سے دوچار کیا اور پھر اسی ملک کے اربوں ڈالر قبضے میں لے کر آدھے اپنے لوگوں میں بانٹ دئیے۔