سب کچھ ویسا ہی تھا 

پردیس میں رہنے والے لوگ جب اپنے پیارے وطن، اپنی سرزمین پر جانے کیلئے پروگرام بناتے ہیں تو کیسے کیسے ارمان و محبتیں اور چاہتیں ان کے دلوں سے پھوٹنے لگتی ہیں، وطن کی مٹی کو چھونے کا تصور اتنا خوبصورت اور مسحور کردینے والا ہوتا ہے کہ وطن میں ہمیشہ رہنے والے اس خیال کو محسوس نہیں کر سکتے۔ میں نے بھی جب پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز کا ٹکٹ ہاتھ میں لیا تو میرے احساسات بھی بہت خوبصورت تھے میں ایک بار پھر وطن کی ہواؤں کو چھونے کیلئے ذہنی طورپر تیار تھی۔ پی آئی اے کے ڈیپارچر لاؤنج میں بھی اپنے پیارے ملک سے جیسے ملاقات پورے شدومد کے ساتھ ہو جاتی ہے اگرچہ یہ وہ چہرے ہوتے ہیں جو مغرب میں رہتے رہتے کچھ پتھر قسم کی مخلوق ہو جاتے ہیں مسکراہٹ، سلام دعا سے عاری لوگ، لیکن اک طمانیت کہ ہم وطن ہیں۔ جہاز روزانہ ہوگیا تھا آسمانوں کی بلندیوں پر‘ وطن پہنچنے کا یہ سفر 15گھنٹے کی طویل ترین فلائٹ پر مشتمل ہے راستے میں کہیں بھی یہ جہاز رک کر سانس نہیں لیتا۔ بس ایک ہی لمبے سفر کے بعد اس نے وطن کے ائیر پورٹ پر ہی رک جانا ہوتا ہے۔اسی لئے بوڑھے، بیمار بچے اور رستے کی ٹرانزٹ کی مشکلات سے بچنے کیلئے اسی جہاز کے مسافر ہوتے ہیں جیسے جہاز میں ایک چھوٹا سا پاکستان، ہر شہر ہر علاقے کی ثقافت کو پاکستان کی طرف جانے والے یہ مسافر پیش کررہے ہوتے ہیں۔چند گھنٹے ہوتے ہیں جس میں زبردستی ان کو سیٹ بیلٹ باندھنے کے بہانے سیٹ تک ہی روک دیا جاتا ہے لیکن بعد میں کیا ہوتا ہے جنہوں نے بھی یہ طویل سفر طے کیا ہے مجھ سے بہتر وہ خود جانتے ہیں ایک مصرعہ ہے کہ ”چین اک پل نہیں ہے“ بس اسی مصرعے کے مصداق پر عورت، بچہ، بوڑھا حرکت میں برکت ڈالتا رہتا ہے۔نیا ائر پورٹ، جو فتح جنگ اسلام آباد کے پاس ہے خوبصورت کشادہ، صاف ستھرا اور مسافروں کو خوش آمدید کہنے کیلئے ائیر پورٹ کا عملہ کچھ اجنبی سا لگا، کہاں وہ سیڑھیاں اترنے کاعمل، بسوں میں بیٹھ کر امیگریشن آفس تک پہنچنا، اور اب شیشے والی خوبصورت لفٹ، کاش یہ صفائی، یہ حسن، یہ انتظام ہمیشہ سلامت رہے ان سب کو وقت کی دھول نگل نہ لے، باہر نکلی تو دور دور تک وسیع و عریض زمینیں، شاید اک نئے شہر کی نوید سنا رہی تھی ہو سکتا ہے اپنے کسی اگلے سفر میں مستقبل میں بننے والی عمارتیں میرا استقبال کریں، گاڑی چل رہی تھی اور میں سوچ رہی تھی کہ سب ویسا ہی تھا، حتیٰ کہ جو شخص جہاں چھابڑی لگا کر بیٹھا ہوا تھا وہ بھی وہی بیٹھا تھا، میں نے کوشش تو بہت کی تھی کہ میں پردیس میں بھی بالکل دیسیوں والی زندگی گزاروں لیکن نہ جانے مغرب کی نازک اندامی شاید چپکے سے میرے ساتھ پی آئی اے میں سفر کرتی ہوئی آگئی تھی میرا گلا اور ناک گرد و غبار سے بند ہوگیا۔ سانس گھٹتی محسوس ہوتی ہی چلی گئی اور پھر اگلے کئی دن میں ہسپتال، ڈاکٹرز اور دوائیوں سے نبردآزما رہی لیکن یہ سب میں نے خود نہیں کیا تھا بلکہ حتی الامکان کوشش کی تھی کہ اپنے آپ کو بھی پتہ نہ چلا کہ میں کسی صاف ستھری جگہ سے آئی ہوں جہاں گرد، مٹی، دھول کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ جو ہونا تھا اب ہو چکا ہے شاید کچھ دنوں میں دوبارہ سے میرا گلہ، ناک، منہ ان تمام باتوں کے عادی ہو جائیں گے۔ میرے وطن کے لوگ ان کا دل بہت بڑا ہے ان کی برداشت صبر اور ہمت کیلئے ابھی کوئی پیمانہ تخلیق نہیں ہوا اچھا ہے ان کو پتہ ہی نہیں دنیا کس طرح زندگیاں گزارتی ہے، صاف ہوا، صاف پانی، صاف ستھری سڑکیں، اعلیٰ ترین سکول کیسے ہوتے ہیں، اچھی اور خالص خوراک کیا ہوتی ہے ورنہ نہ جانے ان کی مایوسی کا کیا عالم ہوتا۔ لا علمی اور نا سمجھی ہی بس ایک طرح ہی سے عیاشی ہوتی ہے کوئی بات پتہ ہی نہیں یا کسی بات کی سمجھ ہی نہیں۔ اس لئے خوشی سے بڑھ کر شاید دنیا کی کوئی خوشی نہیں ہو سکتی، عقل و فہم رکھنے والے لوگ صفحات سیاہ کرتے رہتے ہیں بول بول کر گلا خراب کرتے رہتے ہیں وہ ایک محاورہ ہے ایک نہ اور سو سکھ، بات کی تہہ تک پہنچ کر اپنے آپ کو برباد نہیں کرنا چاہئے‘ خاموشی انسان کو بہت سے سکھ جھولی میں ڈال دیتی ہے انگریزی چینل دیکھتے دیکھتے آنکھیں تھک چکی تھی خوشی سے نہال تھی اپنے کرنٹ افیئرز کے ٹی وی چینل دیکھوں گی اپنے اخبار پڑھوں گی، بیماری سے ذرا اچھی ہوئی تو ہاتھ میں ریموٹ لیا پھر گھماتی ہی چلی گئی، کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوا سب کچھ ویسے کا ویسے تھا۔فرق اتنا تھا کہ کچھ نئے چینل کھل گئے تھے لیکن انداز و بیان ویسا ہی پرانا تھا گھبراکے کارٹون فلم لگالی اور پھر وہی دیکھ دیکھ کر بور ہوگئی‘ دکھ کی ایک لہر میرے چہرے اور میرے دل پرآگئی کیا ہم ترقی کر سکتے ہیں کیا ہم اپنے مسائل پر مدھم آواز میں بات کرنے کے اہل ہو سکتے ہیں۔کیا ہم اس حد تک ہی بدل سکتے ہیں کہ ٹیلی فون پیغام کا جواب بھی دے دیں۔ جہاں تک مشکلات کی بات ہے تویہ مشکلات تو پر دیس میں بھی بہت ہیں لیکن ان کی نوعیت بالکل جدا ہے وہ محنت اور کوشش کا مطالبہ کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ محنت کرو گے تو ترقی کرو گے اور پھر جو بھی ان مشکلات کی بات سمجھ لیتا ہے وہ بہت خوش و خرم زندگی گزارتا ہے۔