بحرالکاہل کے ساحل پر 

امریکہ کے شہر لاس اینجلس میں کینیڈا کا سفارت خانہ ہوپ سٹریٹ پر واقع ہے یعنی امیدوں سے بھرپور گلی، میں بھی تو اپنے اور خاندان کا بظاہر مستقبل سنوارنے امید کے پھولوں سے بھری ہوئی اس گلی تک لمبا سفر طے کرکے پہنچ گئی تھی، سفارت خانہ ساتویں منزل پر ہے جو 3/2کمروں پر مشتمل ہے اسلام آباد میں واقع اپنے ملک پاکستان کے سفارت خانے نظروں کے سامنے پھر گئے۔ اسلام آباد میں میرا دفتر کا نسٹی ٹیوشن ایونیوپر واقع ہے اور ایکڑوں پر پھیلے ہوئے مغربی ممالک کے سفارتخانے بھی اسی مشہور سڑک پر واقع ہیں میں نے کینیڈین سفارت خانے کی اس اندھیری کھڑکی کی طرف نگاہ کی توایک گورا کھڑکی کے اس پار امیگریشن لینے والوں کے انٹرویو کرتا ہوا دکھائی دیا تائیوان سے تعلق رکھنے والا ایک جوڑا بھی آگیا اس کے بعد ایک چائنیز بھی اس لاؤنج میں آگیا۔ اگر چہ ہم نے اپنی دستاویزات تو بہت محنت سے پلاسٹک کے لبادے(Cover) میں لپیٹا ہوا تھا، لیکن گورے کینیڈین کونسلر نے تمام ڈگریاں اور مختلف دستاویزات پلاسٹک کے لفافوں سے نکال کر اپنے ہاتھ میں پکڑ لیں۔ کھڑکی کے پار گنجا کینیڈین بہت لمبا تڑنگا تھا۔ کسی بے رحم ممتحن کی مانند اس نے میرے خاندان کا انٹرویو کیا جو مجھ جیسی مخلص اور عاجزانہ مزاج رکھنے والی خاتون کو کچھ کچھ ہتک آمیز لگا۔ لیکن شاید میرے نصیب میں اگلے سالوں میں پاکستان کا دانہ پانی اٹھ گیا تھا مجھے امیگریشن مل گئی تھی۔ واپسی پر ہم ایک بس میں بیٹھ گئے جو پبلک بس ہے اور مغربی ممالک میں لوگوں کو سفر کی سہولیات دینے کا اہم ترین ذریعہ ہے بلکہ بسیں اپنے مقررہ وقتوں میں اس طرح چلتی ہیں کہ آپ چاہیں تو اپنی گھڑیوں کے اوقات ان کے مطابق درست کرلیں۔ ہم نے اورنج کاونٹی واپس آنا ہے راستے کا اتہ پتہ ہمیں نہیں ہے بس میں بیٹھے ہوئے ایک ہندوستانی نے ہمیں ایک ایسے غلط سٹاپ پراترنے کی ترغیب دی جو بقول اس کے سیدھا ہمارے ہوٹل کی طرف جاتا ہے جب کہ ہمیں بس کے انگریز ڈرائیور نے اس سٹاپ پر اترنے سے منع کیا۔ لیکن ہم اپنا دیسی سمجھ کر اس کی بات کو اہمیت دے گئے اور پھر وہی ہوا جو امریکہ جیسے وسیع و عریض ملک میں پیدل چلنے والوں کا اور راستہ معلوم نہ ہونے والوں کا ہوتا ہے اک بہترین سبق حاصل کرنے کے بعد ہم پریشان حال واپس ہوٹل آئے۔ اور اپنی بیوقوفی پر خود ہی اپنے آپ کو کوستے رہے وہ ہندوستانی ذہنی مریض تھا۔ کیلی فورنیا نہایت خوبصورت ہے یہاں شاذ و نادر ہی کوئی شخص پیدل چلتا ہوا نظر آتا ہے ہزاروں کی تعداد میں نئے ماڈلز کی گاڑیاں ہیں وسیع اور کشادہ سڑکیں ہیں جو چھ اور سات لائنوں پر مشتمل ہیں اور بہترین گاڑیاں پلک جھپکتے ہی ان پر سے گزر رہی ہیں ہمارا ہوٹل بھی اوریج کاونٹی کی کھلی سڑک پر واقع ہے رات کو میں نے اسی سڑک پر لمبی چہل قدمی کی۔ سند باد فام کا سٹور دیکھ کر میں نہ رہ سکی اور اندر چلی گئی سوچا ہوٹل کے باورچی خانے میں خود کھانا بناؤنگی۔ میں نے ایک چکن، آدھ کلو قیمو، ٹماٹر، پیاز سبز مرچیں اور دھنیا خریدا، ساتھ ہی دودھ اور روٹیوں کا پیکٹ بھی اٹھا لیا ان تمام اشیاء کا بل صرف 8ڈالر بنا۔ یعنی امریکہ میں 8روپے، کیلی فورنیا امریکہ کی ان ریاستوں میں شمار ہوتی ہے جو باقی امریکہ کی ریاستوں اور کینیڈا کو بھی سبزی فروٹ سپلائی کرتی ہے۔ سب سے زیادہ سستی اشیاء یہی پر ملتی ہیں۔ میں نے چکن کے ساتھ گوبھی بھی بنائی اور اپنے پختون بھائی کو بھی اپنے ہاتھ سے بنا ہوا کھانا کھلوایا۔ ہر پر دیسی اپنے دیس کے کھانوں کی خوشبو کو ترستا ہے اور اپنے آپ کو اس وقت خوش قسمت تصور کرتا ہے ہاتھ سے پکا ہوا کھانا کھا رہاہے۔ہینگلنٹن بیچ نام کا سمندر کا کنارہ دیکھ کر مجھے بہت ہی زیادہ خوشی ہوئی میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ بحر الکاہل کے کنارے پر کھڑی ہو کر اسکے پانیوں کو چھو کر دیکھونگی اور اس کے کناروں سے سیپیاں جمع کرونگی۔ بحرالکاہل گرم پانیوں کا سمندر ہے اور کیلی فورنیا بھی موسم بہار کی ریاست ہے جہاں سال کے سارے موسم بہار دکھلاتے ہیں۔ انگریز عورتیں اور انگریز مرد گرم ساحل کو دل و جان سے پسند کرتے ہیں اور ریت سے بھرے ہوئے ان ساحلوں پر سارا دن اپنا چہرہ سورج کی طرف کرکے اس کی گرمی کو جذب کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں ان کے چپٹے سفید چہروں پر سورج کی تپش سے دھبے پڑ جاتے ہیں میرے لئے یہ سب بڑا عجیب ہے لیکن میرے بیٹے نے مجھے بتایا کہ امی ساحل سمندر پر یہ لوگ دھوپ سے اپنے چہرے سرخ اور کالے کرلیں تو اپنے حلقہ احباب میں معتبر ٹھہرائے جاتے ہیں کہ ان ممالک میں ساحل سمندر پر جلتی ریت پر دن گزارنا فخر اور غرور کی نشانی ہوتا ہے ساحل سمندر کے قرب و جوار میں خوبصورت پارک تھا جہاں کچھ کچھ فاصلے پر ریاست کی جانب سے اپنے شہریوں کیلئے باربی کیو کرنے کیلئے چولہے بنائے گئے تھے۔انگریز خاندان ان چولہوں کی جگہوں کی یہاں آنے سے پہلے ایڈوانس بکنگ کرواتے ہیں تا کہ کسی قسم کے جھگڑے کی نوبت نہ آئے۔ کیلی فورنیا سے پہلے میں نے امریکہ کی دو تین ریاستیں بڑی تفصیل سے دیکھی ہیں جن میں نیو یارک، واشنگٹن ڈی سی اور ورجینیا شامل ہیں۔ لیکن جس طرح خوبصورت محسوسات میں نے کیلی فورنیا اور لاس اینجلس کیلئے محسوس کئے ہیں اس سے پہلے کبھی نہیں کئے۔ میں خود بھی نہیں جانتی کہ ایسا کیوں ہے بلکہ دل نے تو صاف صاف کہہ دیا کہ کبھی فیصلہ کرنا پڑا کہ پاکستان سے باہر کہیں رہناہے تو لاس اینجلس کو ہر صورت فوقیت دونگی۔