ڈاکٹر بنوری کی کھری کھری 

جامع اور قابل عملی تعلیمی پالیسی اور اس پر مؤثر عمل درآمد پاکستان کی بنیادی ضرورت ہے قومی اہداف اور ترجیحات میں تعلیم اولین ہونی چاہئے۔ معیار، مالیات، خود مختاری اور شفافیت کے اصول اپنا کر تعلیم کا مقصد حاصل ہوگا جامعات کی تعداد بڑھانے سے زیادہ اداروں کے استحکام پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ فروغ تعلیم کے لئے یکسوئی سے کام کرکے ہی نتائج حاصل ہونگے اعلیٰ تعلیمی کمیشن دستیاب مالی وسائل کے اندر رہتے ہوئے جامعات کی رہنمائی اور مالی سرپرستی جاری رکھے گا۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی کارکردگی جانچنا بھی اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی ذمہ داریوں اور دائرہ اختیار میں آتا ہے تعلیم کو نظر انداز کرکے اس کی اہمیت گھٹانے سے پورا معاشرہ بگاڑ کا شکار ہوگا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں تعلیم ہمیشہ سے نظر انداز رہی ہے۔ یہ باتیں میری نہیں بلکہ یہ کھری کھری اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر طارق جاوید بنوری نے پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کی دعوت پر جامعہ کے دورے کے موقع پر ٹیچرز کمیونٹی سنٹر میں اعلیٰ تعلیم کا ماضی حال اور مستقبل کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خصوصی مقرر کے طورپر خطاب کرتے ہوئے کہیں۔
ڈاکٹر بنوری کے دورے اور خطاب کا پروگرام ایک ہفتہ سے شیڈول تھا۔ میڈیا میں بھی آیا اور ایک ہفتے سے ٹیچرز کمیونٹی سنٹر کے مین گیٹ پر بینر بھی آویزاں رہا مگر کیا کہئے کہ یونیورسٹی میں اس دن نہ صرف کئی متوازی پروگرام منعقد کئے گئے بلکہ جامعہ کی انتظامیہ کا کوئی فرد بھی چیئرمین ایچ ای سی کے قریب سے نہیں گزرا، یہ تو بھلا ہو میل اور فی میل سٹوڈنٹس کا جنہوں نے آکر پیوٹا ہال کا نصف حصہ بھر دیا اور یوں ڈاکٹر بنوری کیلئے منعقدہ سیمینار ناکامی سے بال بال بچ گیا، موصوف نے تعلیم کے ماضی حال اور مستقبل کے بارے میں جو کچھ کہہ دیا بلا شبہ کہ ایسی باتیں صاحب اقتدار لوگوں کی طبیعت پر بہت گراں گزرتی ہیں اور باعث حیرت امر یہ بھی ہے کہ ٹیچرز ایسوسی ایشن کی اس سرگرمی کو جامعہ کی انتظامیہ نے ایک متوازی انتظام سمجھ کر اس کا بائیکاٹ کیا اور محض سیکورٹی والوں کی ڈیوٹی لگانے پر اکتفاء کیا۔ چیئرمین موصوف نے جو کچھ کہا میرے نزدیک تو اس میں اختلاف کا کوئی پہلو نہیں نکلتا بلکہ ڈاکٹر بنوری نے تو ایک کلیدی سرکاری عہدے پر فائز ہوتے ہوئے بھی جرأت اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے موصوف کا یہ کہنا کہ تعلیم کو درپیش مسائل ہر فورم پر اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے نیز یہ کہ تعلیم حکومتی ترجیحات اور قومی اہداف میں سرفہرست ہونی چاہئے نہ صرف اس وقت بلکہ ہر دور میں صاحب اقتدار حلقے کے نزدیک اشتعال انگیزی کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ ہماری تعلیم ہمارے قومی مقاصد، ترقی اور معاشرے کی تعمیر اور رہنمائی کے مقام سے کافی دور کھڑ ی نظر آرہی ہے۔
 حقیقت تو یہ ہے کہ جن اقوام نے تعلیم و تحقیق اور پیشہ ورانہ تربیت کو اپنے قومی مقاصد اور ترجیحات میں سرفہرست رکھا وہ آج ساری دنیا پر حکمرانی کررہی ہیں اور ہم جیسے لوگ بھیک کیلئے جھولی پھیلائے ان کے سامنے کھڑے نظر آرہے ہیں ڈاکٹر بنوری کی خدمت میں بحیثیت میزبان سپاسنامہ یا خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے جامعہ کے موجودہ اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر جمیل احمد چترالی نے جو کچھ چیئرمین موصوف کے سامنے رکھ لیا ضروری نہیں کہ اس سے سو فیصد اتفاق کیا جائے تاہم موصوف کی یہ باتیں ایک اٹل حقیقت ہے کہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے تحت بغیر کسی تیاری اور میکانیزم کے جامعات کو صوبوں کی جھولی میں ڈال دیا گیا اور پھر ذمہ داریوں کی انجام دہی اوراعلیٰ تعلیمی اداروں کی مالی سرپرستی کی بجائے کم از کم خیبر پختونخوا کی حد تک تو تجربات کاایک نیا سلسلہ شروع ہوا جو کہ تاحال رکا ہوا نہیں ہے کارکردگی اورجامعات کو سنبھالنے کی حالت تو یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کے بارہا احتجاج اور مطالبات کے باوجود تاحال صوبائی اعلیٰ تعلیمی کمیشن کا قیام بھی ممکن نہ ہو سکا۔ حکومتی سرپرستی کا یہ عالم ہے کہ تعلیمی بجٹ اور جامعات کی گرانٹ میں اضافے کی بجائے تمام تر مالی بوجھ یونیورسٹیوں پر ڈال دیا گیا یہاں تک کہ بجٹ میں جو اعلانات ہوئے یونیورسٹیاں اوراس کے ملازمین تاحال اس سے بھی محروم ہیں یہ ایک المیہ ہے کہ وبائی صورتحال میں تعلیم پر مرتب ہونیوالے منفی اثرات کو حکومت نے ذرا بھر محسوس نہیں کیا چیئرمین نے اساتذہ اور طلباء کے ضروری اور غیر ضروری سوالات کے جوابات بھی دیئے اور اسلامیہ کالج ملازمین کے احتجاج کے حوالے سے ایک سوال پر یہ بات بھی واضح کردی کہ اسلامیہ کالج کو گرانٹ نہیں ملی۔ موصوف کا کہنا تھا کہ ملک میں ایسی کوئی پبلک سیکٹر یونیورسٹی نہیں ہوگی جنہیں ایچ ای سی کے توسط سے گرانٹ نہیں دی گئی ہو لہٰذا جو کوئی ایسا کہے گا غلط ہوگا۔ ڈاکٹر بنوری کے دورے میں یہ بات بھی قابل توجہ رہی کہ محض میزبان یونیورسٹی کی انتظامیہ غیر حاضر نہیں رہی بلکہ کیمپس کی دوسری جامعات کے وائس چانسلرز بھی نظر نہیں آئے حالانکہ دورہ غیر اعلانیہ یا ہنگامی نہیں تھا۔ بعض غیر جانبدار لوگوں کے مطابق وائس چانسلر صاحبان وہی لوگ ہیں کہ جب اعلیٰ تعلیمی کمیشن میں جاتے ہیں اور ملاقات نہیں ہوتی تو چیئرمین کی مصروفیات کا شکوہ ساتھ لیکر آتے ہیں۔