فریزنگ رین کی اصطلاح میں نے کینیڈا میں سنی تھی یعنی ایسی بارش جو سردی کی شدت سے ہوا میں ہی برف بن جاتی ہے اور زمین پر گرتے ہی ایسے برفیلے میٹریل میں تبدیل ہو جاتی ہے کہ پیدل چلنے والابھی گرتا ہے اور گاڑیاں بھی پھسل کر کہاں سے کہاں چلی جاتی ہیں اس وقت فریزنگ بارش زوروں پر ہو رہی ہے سکول سے صبح سویرے ہی ای میل آگئی تھی کہ سکول بند کر دیئے گئے ہیں سکول بسوں کو حادثوں سے بچانے کیلئے اور بچوں کو محفوظ رکھنے کیلئے ایسے حفاظتی انتظامات عام طورپر یہاں کینیڈا میں کئے جاتے ہیں بحراوقیانوس کے کنارے پر آباد شمالی امریکہ کے متعدد شہر اور یاستیں سردیوں میں شدید برف کی لپیٹ میں ہوتے ہیں 2022ء کا جنوری اور اب فروری مارچ بھی موسم کی سختی لئے ہوئے آیا ہے گزشتہ دو مہینوں سے موسم منفی32سے لیکر منفی11-10 کے درمیان میں ہی رہا ہے اوریخ بستہ ہواؤں سے منفی کے یہ ہندسے 10 اور20 جمع کرکے کہاں سے کہاں چلے جاتے ہیں اور موسم کے محکمے صاف صاف بتا دیتے ہیں کہ آپ اس موسم میں بغیر مناسب گرم کپڑوں کے ایسے منجمد ہو سکتے ہیں جیسے فریزر میں پڑا ہوا گوشت‘ اس لئے سردیوں میں ایسی ٹوپیاں اور جیکٹس سٹورز پر دستیاب ہوتی ہیں جو منفی چالیس تک کی سردی کو سمیٹتی ہیں اور ایسے بوٹ بھی جو برف پر چلنے کے قابل بناتے ہیں میں اپنی کھڑکی سے مسلسل ہوتی ہوئی برف باری کو دیکھ رہی ہوں جو بظاہر بارش ہے لیکن آسمان سے زمین پر پہنچتے پہنچتے برف ہی برف بنتی جارہی ہے۔
کینیڈا میں آبادیوں کے بڑھ جانے سے موسموں کی شدت میں اس حد تک کمی آئی ہے کہ پہلے برفانی موسموں میں منفی80سردی پڑتی تھی اب آدھی ہو کر رہ گئی ہے اس خطرناک سردی میں بھی تمام سکول سردیوں میں کھلے ہوتے ہیں اور بچے مناسب گرم لباس میں سکولوں کی طرف اپنی گاڑیوں میں یا سکول بسوں میں جاتے ہوئے نظرآتے ہیں تمام سکول اور تمام گھر بھی مرکزی طورپر گرم ہوتے ہیں اسلئے بچوں کیلئے اس کے بغیر چارہ نہیں ہوتا کہ وہ سکول میں پہنچتے ہی اپنی جیکٹس‘ برف کے بوٹ اور سوئٹرز اتار کر اپنی اپنی الماریوں میں رکھ دیں ہلکے پھلکے کپڑے پہن کر ہی وہ کلاس روم میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کریں اور چھٹی کے وقت دوبارہ وہ سب کچھ پہن لیں اور گھر کو روانہ ہوں جو ان کو بحفاظت اسی طرح گھر پہنچا دے جس طرح وہ بحفاظت سکول آئے تھے سخت برفباری مسلسل ہوتے رہنے سے بھی سکول بند نہیں ہوتے صرف برف کا طوفان آنے کی صورت میں ہی سکول کینسل ہو سکتا ہے گرمیوں میں دو مہینے کی چھٹیاں ہوتی ہیں حالانکہ یہ چھٹیاں تو سردیوں میں ہونا چاہئے تھیں اسکی وجہ یہ ہے کہ سکولوں میں کولنگ سسٹم نہیں لگے ہوتے شمالی امریکہ کی گرمیاں حد درجہ جان لیوا ہوتی ہیں کیونکہ سورج کی تپش 33فارٹ ہائیٹ میں بھی لوگوں کو بے ہوش یا بدحال کردیتی ہے اور وہ گھروں کے اندر یا ٹھنڈی گاڑیوں کو ترجیح دیتے ہیں تمام مال‘ مارکیٹس ائرکنڈیشنڈ ہوتی ہیں اسکے علاوہ گرمیوں میں سمندر کے ساحلوں پر اورجھیلوں کے کناروں پر لطف اندوز ہونے کیلئے پورے پورے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں کینیڈا کے دارالحکومت آٹا وہ میں بھی سخت برفباری اور سردترین موسم اپنے عروج پر ہے اور ان دنوں دارالحکومت کا گھیراؤ سینکڑوں ٹرک ڈرائیوروں نے کیا ہوا ہے انہوں نے گلیوں بازاروں اور آمدورفت کے تمام راستوں کو بلاک کیا ہوا ہے ان کا مطالبہ ہے کہ کورونا بیماری کی ویکسین سے ان کو مبرا کیا جائے اور بارڈرز پر ان سے کورونا ٹیسٹ نہ مانگا جائے۔
کینیڈا میں کورونا کی سختیاں اگرچہ بہت ہی حد تک کم ہوچکی ہیں لیکن امریکہ سے آنے والے تمام بارڈرز پر کورونا ٹیسٹ کی منفی رپورٹ طلب کی جاتی ہے اور اس بات کی اجازت نہیں ہوتی کہ داخل ہوا جائے‘ کینیڈا اپنے شہریوں کی حفاظت کیلئے غیر ضروری طورپر محتاط ہے وہ کسی بھی جانی نقصان کو ناقابل قبول تصور کرتا ہے اور اپنے ملک میں کورونا کے مریضوں کے روکنے کیلئے سختی سے اس ٹیسٹ کی دستیابی بارڈرز حکام کو دینے پر زور دیتا ہے جبکہ امریکہ بھی کورونا کی گرفت سے ابھی تک آزاد نہیں ہوا اور امریکہ جانے والوں سے کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ نہیں طلب کرتا یعنی حیران کن بات ہے کینیڈا سے لوگ ٹرک ڈرائیور اور سیاح بغیر ٹیسٹ کروائے امریکہ میں داخل ہو سکتے ہیں جب کہ امریکہ سے آتے ہوئے ایسا ہونا ناممکن ہے ٹرک ڈرائیور اسی بات کو لے کر لمبی ہڑتال اوراحتجاج کرکے دارالحکومت کو بند کرکے بیٹھے ہوئے ہیں کینیڈا کی تمام تجارت سڑک کے راستے امریکہ کے ساتھ وابستہ ہے فروٹ سبزیاں‘ خوردونوش کا تمام سامان امریکہ سے آتا ہے کئی تجارتی اشیاء کینیڈا سے بھی امریکہ جاتی ہیں اسلئے ہزاروں ٹرک روزانہ دن رات دونوں ملکوں کے درمیان آمدورفت کو جاری رکھتے ہیں امریکہ سے ایک کورونا ٹیسٹ100 امریکی ڈالر میں ممکن ہوتا ہے اور اس پر بھی لمبی قطاریں ہوتی ہیں ٹرک ڈرائیورز کہاں تک صحیح ہیں اور حکومت کینیڈا کس حد تک صحیح ہے آنے والا وقت اس احتجاج کے بارے میں فیصلہ کریگا لیکن ایک بات ضرور ہوئی ہے کہ کینیڈا کی احتجاجی ہڑتال کو دیکھتے ہوئے یورپ کے کئی ممالک میں بھی آمدورفت کو لے کر یہ احتجاج مسلسل طول پکڑتا جارہا ہے کورونا کی بیماری اور اسکے بعد آنے والے اثرات نے مغربی ممالک کو گزشتہ دو ڈھائی سالوں سے بری طرح اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام الناس نے اس بیماری کے ساتھ سمجھوتہ کرلیا ہے موت کا وہ پہلے جیسا خوف کسی پر بھی طاری نہیں ہے دنیا کے تمام کاروبار تفریح دفاتر اور سکول چلنا شروع ہوگئے ہیں ویکسین بنانے والے ادارے اربوں ڈالر جیبوں میں ڈال چکے ہیں پہلی لہر میں مرنے والے لاکھوں لوگ جو نا سمجھی اور ویکسین کی عدم دستیابی پرلقمہئ اجل بن گئے وہ کبھی بھی دلوں سے بھلائے نہ جا سکیں گے اور میڈیکل کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے وہ خوبصورت لوگ ہمیشہ اپنے پیاروں کے سینوں میں دھڑکتے رہیں گے جو دوسروں کو زندگی دیتے دیتے خوداپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔