ایمنسٹی آرڈیننس

صنعتی سیکٹر کیلئے حکومت کی تیسری مجوزہ ایمنسٹی سکیم کا صدارتی آرڈیننس تیار ہو چکا ہے، جو کسی بھی وقت جاری کیا جا سکتا ہے۔ سکیم کے مطابق 2018ء اور2019ء میں متعارف کرائی جانے والی سکیموں سے مستفید ہونے والے اس نئی سکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے اور نہ گزشتہ تین سال میں بنک لون، ڈیفالٹرز اس میں شامل ہو سکیں گے۔نئی ایمنسٹی سکیم سے ان لوگوں کو یقینی فائدہ ہوگا،جو اس خوف سے ملک میں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ کہیں ان کے خلاف بھی احتساب کا شکنجہ نہ کس لیا جائے۔ حکومت کی جانب سے ایسے لوگوں کو موقع فراہم کرناقابل تحسین ہے۔اس سے جہاں صنعتی میدان میں ترقی ہوگی، وہیں ملک میں نئی صنعتوں کا جال بھی بچھے گا اور بے روزگاری پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ مجوزہ سکیم کے تحت نئے صنعتی یونٹوں کے قیام اور موجودہ صنعتی یونٹوں کی توسیع میں جتنی رقم لگائی جائے گی،اس سرمایہ کاری کے پانچ فیصد کے مساوی ٹیکس دے کر باقی رقم کو سفید کرایا جا سکے گا۔دنیا کا کوئی بھی خطہ کالے دھن کی علت سے پاک نہیں اور یہ ملکی معیشتوں میں خاصی اہمیت رکھتا ہے۔
 ترقی یافتہ ممالک اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں اسی لیے انہوں نے ٹیکس ہیونز کے نام سے دنیا بھر سے کالا دھن اپنے ملکوں میں لانے کا باقاعدہ نظام بنا رکھا ہے اگر ان ممالک میں سے غیر قانونی پیسہ نکال لیاجائے توان کی اکانومی کریش کر سکتی ہے۔ پاناما، برٹش ورجن آئی لینڈ، سوئٹزرلینڈ، سنگاپور اور دبئی سمیت کئی ممالک اور ریاستیں دنیا بھر سے ارب پتی لوگوں اور کمپنیوں کو دعوت دیتی ہیں کہ وہ پیسہ ان کے ملک میں لائیں، پراپرٹی خریدیں یا کاروبار شروع کریں،ان سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ پیسہ کہاں سے آیا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ساڑھے تین سالہ دورِ حکومت میں تین ایمنسٹی سکیمیں لانچ کی ہیں۔ پہلی دو سکیموں کے مثبت اثرات سامنے آئے۔ سب سے پہلے 2019 میں ٹیکس ایمنسٹی سکیم لائی گئی اس کے بعد 2020 میں کنسٹرکشن ایمنسٹی سکیم لائی گئی اور اب 28 فروری 2022 کو کابینہ سے منظوری کے بعد انڈسٹری ایمنسٹی سکیم لانچ کی گئی ہے۔
 انڈسٹری ایمنسٹی سکیم سے متعلق میں کئی سالوں سے لکھ رہا ہوں۔ پچھلی دونوں سکیموں کی لانچ پر میں نے اس امر پر زور دیا تھا کہ پراپرٹی کے بجائے ملک میں صنعتیں لگانے کے لیے عوام کو کھلی چھوٹ دی جائے انہیں یقین دلایا جائے کہ اگر وہ ملک میں فیکٹریاں لگائیں گے تو ان سے نہیں پوچھا جائے گا کہ پیسہ کہاں سے آیا۔ اس کے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ روزگار بڑھے گا، برآمدات میں اضافہ ہو گا، مہنگائی کم ہو گی، معیشت کا پہیہ تیز چلے گا، فی کس آمدن بہتر ہو گی اور ملک کی شرحِ نمو میں ریکارڈ اضافہ ہو گا۔ہر دور حکومت میں ملکی معیشت کی بحالی کیلئے مختلف سہولتیں دی جاتی رہی ہیں، موجودہ حکومت بھی معاشی بحران کے شکار ملک کی اقتصادی بحالی اور بے روزگاری کے خاتمے کیلئے صنعتوں کو رعایت دینے کی کوشش کر رہی ہے، حکومت کی جانب سے رعایتی پیکیج سے صنعتی میدان میں ترقی کی راہیں کھلیں گی۔اس میں شک نہیں کہ ہر دور میں عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ پر زیادہ ٹیکس عائد کرنے پر زور دیا جا تا رہا ہے، موجودہ حکومت کا بھی اقتصادی بحران سے نجات کے لئے یہی موقف رہا ہے کہ ٹیکس کی آمدنی میں اضافہ کے بغیر استحکام حاصل نہیں ہو سکے گا، تاہم وقت کے ساتھ حکومتی نقطہ نظر میں کچھ تبدیلی آنے لگی ہے۔
 وزیر اعظم کا اب کہنا ہے کہ اقتصادی اور کاروباری سرگرمیوں کے بغیر معاشی استحکام حاصل نہیں ہو سکے گا، صنعتی اور کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کے لئے صرف سرمایہ کاری ضروری نہیں، بلکہ دیگر اہم اقدامات بھی ضروری ہیں‘ دیکھنا یہ ہے کہ اندرون اور بیرون ملک مقیم پاکستانی سرمایہ کاروں کو دی جانے والی سرمایہ کاری کی ترغیب کتنی کامیاب ہوتی ہے اور اس کے کتنے مثبت اور منفی نتائج نکلتے ہیں جبکہ ایمنسٹی سکیم کو کامیاب کرنے کیلئے حکومت پر عزم دکھائی دیتی ہے اور آئی ایم ایف سے منظوری بھی لے لی گئی ہے۔ واضح رہے کہ ایف بی آر نے سات ماہ میں اہداف سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کر لیا ہے اور ممکنہ طور پر مالی سال 2021-22 کے اختتام سے پہلے ہی سالانہ ٹیکس اہداف حاصل ہو جائیں گے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شاید حکومت نے صحیح معاشی سمت کا تعین کر لیا ہے۔ انڈسٹری ایمنسٹی سکیم سے جی ڈی پی میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن مشینری کی درآمدات سے ڈالر پر دباؤ بڑھ سکتاہے۔
 جب بھی ملکی معیشت 5 فیصد شرحِ نمو تک پہنچتی ہے تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی ریکارڈ اضافہ ہو جاتا ہے لیکن یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ ترقی کی ابتدائی صورتحال ایسی ہی ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ تمام اشاریے ایک ہی مرحلے میں مثبت ہو جائیں۔ ایک مرتبہ مشینری درآمد کر لی گئی تو اسے مقامی سطح پر تیار کرنے کے پلانٹس میں بہ آسانی لگائے جا سکتے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسے صنعت کاروں کو جانتا ہوں جو ٹیکسٹائل مشینری کے درآمد کیے گئے پارٹس اب پاکستان میں مینوفیکچر کر رہے ہیں۔ وہ معیار میں بہتر اور قیمت میں بھی کم ہیں۔ ان حالات میں یہ امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دن ماضی سے بہتر ہوں گے اور عام پاکستانی معاشی اعتبار سے بہتر زندگی گزارنے کے قابل ہو سکے گا۔