وطن سے محبت لفظوں کا کھیل

وطن سے محبت ہرشخص کی روح اور دل میں رچی بسی ہوتی ہے لیکن مغربی اقوام عملاًحد درجہ قومیت پرست ہیں‘وطن سے محبت لفظوں کا کھیل نہیں ہوتا وطن سے محبت اسکے دکھ میں خفا ہونا اس کا مداوا کرنا اور اپنی پوری توانائی سے اسکے دکھ اور تکلیف کو دور کرنا ہوتا ہے اسی طرح وطن میں منائی جانے والی خوشیوں میں خوش ہونا ان میں حصہ لینا اور ان خوشیوں کو قائم رکھنا ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے ہم میں شاید ایسے کام کرنے والے بہت تھوڑے لوگ ہوں۔ میں جانتی ہوں ہمارے وطن کی ساری آبادی ملک سے محبت کرتی ہے اور اسکے دکھ درد کو دل کی گہرائی سے محسوس کرتی ہے لیکن ہم سب پاکستان کے دکھ درد کو دور کرنے میں کتنا حصہ ڈالتے ہیں اس سوال کا جواب شاید ہمارے پاس نہ ہو قانون کی پاسداری کرنا‘ صفائی ستھرائی رکھنا‘ ہم جس بھی پیشے میں ہیں اس میں محنت اور ایماندار سے کام کرنا اپنے ماتحتوں کی عزت کرنا ان کو کام سکھانا‘ ان کی مدد کرنا اپنے وقت کو وطن کی ترقی میں استعمال کرنا‘ سکولوں میں بچوں کو  بغیر امیر غریب کا فرق کئے ہوئے تعلیم کے مواقع ایسے اچھے طریقے سے مہیا کرنا کہ وہ ملک و قوم کا سہارا بن سکیں اور اس طرح کے بے شمار چھوٹے اور بڑے کام ہیں جن کو ہم کرنے کے اہل ہو سکتے ہیں اس میں کسی حکومتی عہدیدار کا ہونا‘ آنا‘ اور پیسہ لگانا  ضروری نہیں ہے مغربی ممالک کی ترقی کی بہت بڑی وجہ ان کی آبادی اور وسائل میں توازن بھی ہے اس لئے ان کے وسائل آبادی پر زیادہ اچھے طریقے سے استعمال ہوتے ہیں ماہرین  آبادی اور وسائل میں عدم توازن کا کسی قوم میں ہونے کو بم کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں کہ اس مسئلے سے دوچار ممالک کو کسی بم سے تباہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ وسائل کم ہونے کی وجہ سے خود ہی تباہی کا شکار ہونا شروع ہو جائیں گے اگرچہ بعض  ایسے ترقی یافتہ ممالک بھی ہیں جہاں آبادی بھی زیادہ ہے لیکن ترقی بھی خوب ہوئی ہے اس کا راز ان کے وہ سمجھدار قائدین ہیں جو  مخلص ہیں اور پچاس سال ایڈوانس میں اپنی تعمیر و ترقی کے حوالے سے منصوبہ بندی کرتے ہیں یہاں مغربی ممالک میں ایسی کانفرنسز اور میٹنگز بہت عام ہیں جو آج سے بیس سال‘ تیس سال اور پچاس سال بعد کی منصوبہ بندی کیلئے منعقد ہوتی ہیں جن میں یہ بحث کی جاتی ہے کہ آبادی آنے والے سالوں کیلئے کہاں تک جائیگی ان کو کتنے سکولز درکار ہونگے کون کون سے شعبے اہم ہیں اسلئے آنے والے بچوں کو کس طرح ان شعبہ جات کیلئے تیار کرنا ہوگا کتنے ہسپتالوں کی ضرورت ہوگی کہ صحت کی سہولت ہر شخص کو ملے‘ کتنے گھروں کی ضرورت ہوگی ماحولیات کو بہتر بنانے کیلئے درخت لگانے کی کیا منصوبہ بندی ہوگی غرض کہ ایک ایک جزو انسانی زندگی سے وابستہ زیر بحث آتا ہے اور پھر تعمیر شروع ہو جاتی ہے اور جب10سال‘ بیس سال‘ تیس سال گزرتے ہیں سب انفراسٹرکچر تیار ہوتا ہے مین پاور تیار ہوتی ہے مغرب کے لوگ باتوں کی بجائے عمل پر یقین رکھتے ہیں اور ہر وہ ترقی یافتہ قوم جو مشرق میں ہے یا مغرب میں ہے وہ بولتی کم ہے کام زیادہ کرتی ہے اگر ان کے کام پر کوئی حرف آجائے تو وہ کسی اور کو بہتر کام کرنے کیلئے اپنی جگہ چھوڑ دیتے ہیں تاکہ ان کے ملک کیلئے کوئی اور بہترین دماغ آئے اور اسکی ترقی کیلئے سوچ سکے ترقی یافتہ ممالک میں بچوں سے مشقت لینا ان کو تعلیم سے دور رکھنا اور ان کے بچپن میں گھریلو کام کاج‘ گاڑیاں دھونے‘ بھیک مانگنے کا کوئی تصور نہیں ہے ملائشیا کی ایک سیاحت کے دوران میں نے اپنے گائیڈ سے پوچھا کہ کیا آپ کے بچے گھروں میں کام کاج کرتے ہیں دوسروں کے بچوں کی آیا گیری کرتے ہیں گاڑیوں کی ورکشاپس کیا بچوں سے مشقت  کا کام لیتی ہیں وہ میری بات سن کر حیران ہوا اور پھر پریشان ہوگیا کہ جیسے میں نے اسکو کوئی ایسی عجیب بات کردی ہو جس سے اسکو دکھ پہنچا ہو اس نے نہایت تحمل سے کہا میڈم ایسا ہرگز نہیں ہے اور ایسا تو سوچنا بھی ہمارے ملک میں گناہ ہے اس کے کروانے والے کیلئے کڑی سزائیں ہیں ہمارا ہر بچہ سکول جاتا ہے تعلیم حاصل کرتا ہے چاہے وہ غریب ہے یا امیر تعلیم حاصل کرنا حکومت کی طرف سے اسکے لئے حق بن جاتا ہے اور میری نظر میں نہ جانے ایسی پاکستان کی کئی مارکیٹیں گھومنے لگیں جہاں چھوٹے بچے ہاتھوں میں وائپر اور ڈسٹر لئے ہر گاڑی کے مالک کی منت کرتے پھرتے ہیں کہ وہ اسکی گاڑی کو چمکا کر رکھ دیگا اسکے واپس آنے تک اسکی گاڑی کے ٹائر دھوئے گا اور نہ جانے کون کون سے بچے‘ کیا کیا کرتے ہوئے‘ سب ایک ایک کرکے آنکھوں کے سامنے آنے لگے یقینا یہ غیر ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی معصوم نسلوں سے کیا کام لے  رہے ہیں اور پھر پاکستان کی ترقی کا خواب بھی دیکھتے ہیں۔