افہام و تفہیم سے مسئلے کا حل ممکن نہیں؟ 

 مادر علمی پشاور اور ملک کی موجودہ قدرے گرم اور بے چین فضا تقریباً ایک جیسی معلوم ہوتی ہے کورونا کے دو سالہ پے درپے وار کی شدت کے بعد جب تعلیم نے ایک حد تک سکون کا سانس لینے کا ارادہ کرلیا تو بیچاری کو اساتذہ اور غیرتدریسی ملازمین کے نہ تھکنے نہ رکنے والے احتجاج نے دبوچ لیا دفاتر میں تالہ بندی اور کلاسز کو خیرباد کے اس تندوتیز ماحول میں یکجہتی کے نام پر جوش خطابت کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے جنہیں تالیوں کی گونج نے مزید گرما دیا ملازمین نے ایکا کرکے تمام تر یونینز پر مشتمل اتحاد قائم کرلیا جسے جائنٹ ایکشن کونسل یا مشترکہ احتجاجی کمیٹی کانام دیا گیا احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے انتہائی اقدام سے قبل صوبائی حکومت اعلیٰ تعلیمی کمیشن طلباء والدین اور یونیورسٹی انتظامیہ کو اپنے موقف اور مطالبات سے آگاہ کرنے کی بارہا کوشش کی مگر ان کی ہر سعی جب ناکام ہوتی نظر آئی تو لامحالہ تالہ بندی کی نوبت آئی اور اب اس کا اختتام تب ہوگا جب مطالبات تسلیم کئے جائیں ملازمین کا ڈیمانڈ نوٹس 16 مطالبات پر مشتمل ہے جس میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جس پر بات چیت کے ذریعے افہام و تفہیم ممکن ہے مگر کیا کریں کہ حکومت کی سردمہری اور یونیورسٹی انتظامیہ بالخصوص انتظامی سربراہ کی بے بسی کے سبب حالات گھمبیر ہوگئے اور بات اس حد تک بگڑ گئی کہ اپنے تو کیا دوسری یونیورسٹیوں کے ملازمین نمائندے بھی جامعہ پشاور کی انتظامیہ کو للکارنے لگے اس دوران بعض اساتذہ اور محدود تر افسران نے اپنا اپنا کام چلانے کی کوشش بھی کی مگر کچھ بھی نہ بن پڑا کیونکہ طلباء اور دفاتر کے نان ٹیچنگ سٹاف کی غیر حاضری آڑے آتی رہی ادھر سٹیج پر آنیوالے ملازمین نمائندے بھی ایسے اساتذہ اور افسران کی نہایت غیر پارلیمانی انداز میں خبر گیری کرتے رہے احتجاج کرنے والے اس موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ ملازمت کے دوران فری رہائش فری تعلیم اور فری علاج انکے قانونی حقوق ہیں لہٰذا اس پر کسی قسم کی سودا بازی نہیں ہو سکتی دوسری طرف جامعہ کے انتظامی سربراہ کا کہنا ہے کہ جبکہ حکومتی مالی تعاون سے یونیورسٹی مالی ابتری کی گھمبیر حالت سے نکل آئی ہے تو ایسے میں ملازمین اپنے الاؤنسز میں سے کچھ حصہ چھوڑنے کی قربانی کیوں نہیں دیتے؟ مجھے یاد ہے کہ انتظامی سربراہ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ جب مالی بحران ختم ہو جائے تو مراعات یا الاؤنسز میں ہونیوالی قدرے کٹوتی واپس بھی ہو سکتی ہے اب چونکہ وائس چانسلر صاحب کہتے ہیں کہ حکومت نے گزشتہ ایک سال کے دوران جامعہ کو دو بلین روپے گرانٹ فراہم کرکے یونیورسٹی کو اس قابل بنا دیا ہے کہ اپنے بجٹ کا ایک معقول حصہ طلباء کیلئے مختص کردے تو ایسے میں یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ کٹوتیاں واپس کرنے کا وقت آپہنچایا کچھ عرصہ مزید انتظار کرنا پڑے گا؟ بہرکیف اس وقت جو فضا قائم ہے اسے دیکھتے ہوئے انتظار یا صبر کی کوئی گنجائش تو نظر نہیں آرہی البتہ ایوان بالا یا سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اعلیٰ تعلیم کی ہدایت کے تحت جامعہ کے انتظامی سربراہ نے مذاکرات کیلئے جو کمیٹی تشکیل دی ہے اور انہوں نے اپنے مینڈیٹ کے مطابق ملازمین نمائندوں سے مذاکرات کی جو ابتداء کر دی ہے تو ملازمین کی اکثریت کیساتھ ساتھ افہام و تفہیم پر یقین رکھنے والے غیر جانبدار لوگوں کی نظریں بھی مذکورہ کمیٹی پر مرکوز ہیں یہ گرماگرمی ایک طرف جبکہ اسے دیکھتے ہوئے اسلامیہ کالج نے ملکیت کا دعویٰ لیکر جامعہ اور اسلامیہ کالج کے مابین واقع کافی شاپ بازار پر لشکر کشی کی تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا پولیس نے مداخلت کرکے اصلاح احوال کی کوشش کی تالے لگ گئے تالے کھل گئے مگر مسئلہ یا بہ الفاظ دیگر دونوں جانب سے ملکیت کی دعویداری اب بھی اپنی جگہ برقرار ہے خیراندیش لوگ تو یہ توقع رکھتے  تھے کہ مادر علمی اور اسلامیہ کالج مل کر عدلیہ اور حکومت کے تعاون سے مشترکہ طور پر قبضہ مافیا سے اپنی اپنی جائیدادیں واگزار کرنے کی سعی کرینگے مگر کیا کہیے کہ وہ آپس میں الجھ گئے ہیں؟ جامعہ ملازمین کی حالیہ تالہ بندی کے دوران ہی کی بات ہے کہ ٹیچرز کمیونٹی سنٹر میں ایک بہی خواہ نے صوبائی حکومت کی ایک نہایت ذمہ دار شخصیت کی توجہ احتجاج کی جانب مبذول کراتے ہوئے استدعا کی کہ وہ کلیدی مناصب پر فائز حکومتی سربراہوں کو یونیورسٹی کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے یہ بات تاکید سے کہہ دیں کہ یونیورسٹی کے انتظامی سربراہ اور ملازمین نمائندوں کو بلا کر مسئلے کو مذاکرات اور افہام و تفہیم سے حل کرنے کی ذمہ داری پوری کریں مگر کیا کریں کہ مسلسل خاموشی ہے اب اگر حالت سدھر نے کی بجائے مزید بگڑتی رہی طلباء کا تعلیمی ضیاع ہوتا رہا اور شعبہ امتحانات اور ٹریژری سیکشن میں آنیوالے بالخصوص عمررسیدہ بیمار ریٹائرڈ ملازمین مسلسل مشکلات سے دوچار ہوتے رہے تو اسکی ذمہ داری حکومت‘ یونیورسٹی انتظامیہ اور جائنٹ ایکشن کمیٹی پر یکساں طورپر عائد ہوگی۔