نہ ختم ہونے والا موضوع

اقوام کی ترقی اور خوشحالی کا راز انکے رہنماؤں اور قائدین کے دور اندیش فیصلوں میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ آپ خود ہی دنیا کی تمام قوموں پر نظر ڈالتے جائیں اور ان کی ترقی یا پھر تنزلی کے بارے میں سوچتے جائیں تو ایک خوبصورت یا بدصورت تصویر کی طرح چیزیں سامنے آتی ہوئی نظر آنا شروع ہو جائینگی۔ ترقی یافتہ ممالک کی خوشحالی دیکھ کر میں اکثریہ سوال اپنے آپ سے کرتی ہوں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم ترقی میں ان کے برابر نہیں ہیں ہم صحت مند ہیں عقل مند ہیں‘ ہنرمند ہیں لیکن  ترقی و خوشحالی میں ان سے پیچھے ہیں۔ مسائل و مشکلات کا اتنا کیچڑ ہے کہ ہم سب کے پاؤں اسمیں دھنستے ہی چلے جارہے ہیں اور اسی کیچڑ میں ہماری نئی نسلیں بھی جکڑتی جارہی ہیں‘ ہم چاہیں بھی تو ان کو نکال کر اوپر زمین کی سطح تک نہیں لاسکتے‘ اور اسکا تعلق قطعاً اس بات سے نہیں ہے کہ ہمارے  اربوں ڈالرباہر کے بینکوں میں پڑے ہیں یا ہم انگریزی نہیں بول سکتے ایسا نہیں ہے‘ بھلا اگر وہ اربوں ڈالر ملک میں ہی ہوتے تو اس سے کیا ہوجاتا، بہت سی ایسی باتیں ہیں جن کیلئے روپے پیسے کی ضرورت نہیں ہوتی،ہمارے ہاں زیادہ تر مسائل کی وجہ کیاہے؟ اسی ایک سوال کا جواب ہے  بد عنوانی‘ مغربی  ممالک کی ترقی میں سب سے بڑی خوبی ان کا بد عنوانی سے بچے رہنا ہے آیئے دیانت کی بہت ہی ادنیٰ سی مثال آپ کے سامنے رکھتی ہوں۔
 پشاور موڑ  اتوار بازار سے کئی سال پہلے چھابڑی لگاتے ہوئے دکاندار سے ٹماٹر خرید رہی تھی اور یہ تجربہ آپ سب کا بھی ہوگا بے شک وہ بعض ریڑھی والوں سے فروٹ خریدنے کا ہو‘ یا بعض بیکری والے سے بیکری خریدنے کا ہو یاپھر کسی ایک قصاب سے گوشت خریدنے کا ہو‘ جب میں نے ٹماٹروں کی ادائیگی کردی اور لفافے کو ٹٹول کر دیکھا تو آدھے سے زیادہ ٹماٹر گلے سڑے اور گندے تھے یقین کریں جو قیمت اس دکاندار نے مانگی تھی میں بغیر بھاؤ تاؤ کئے اسی پر خریداری کررہی تھی ایسے میں غصہ آنا میرا حق بنتا تھا‘ لیکن میرے ساتھ میرا بیٹا تھا وہ سمجھ گیا کہ معاملہ بگڑنے والا ہے اس نے کم عمری کے باوجود مجھے ایک ایسی بات کہی کہ آج25سال گزرنے کے بعد بھی مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے اس نے کہاامی آپ 10سال بعد بھی اس بازار میں آئیں گی تو یہ شخص آپ کو اسی جگہ بیٹھا ہوا، اسی حالت میں اوپر اچھے اور اندر گندے ٹماٹر بیچتا ہوا نظر آئے گا کیوں‘ کیونکہ یہ اپنے پیشے کے ساتھ مخلص نہیں ہے اور10سال بعد واقعی کئی دفعہ میں نے اس شخص کو اسی گلی میں اسی بازار میں خستہ حال طریقے سے وہی ٹماٹر بیچتے ہوئے دیکھا‘ آپ نے بھی اپنی زندگی میں یہ تجربہ کیا ہوگا، کہ دھوکہ کرنے والا شخص آپ کی نظر میں اپنی ساکھ کھو دیتا ہے آپ کبھی بھی اس سے دوبارہ ڈسنے کیلئے تیار نہیں ہوتے‘اب میرے کہنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہمارے ہاں دیانتدار اور مخلص لوگ نہیں ہیں، ہر شعبے میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں تاہم بعض لوگوں کی وجہ سے اعتماد کوٹھیس پہنچتی ہے۔
مغرب کی دنیا میں معاشرتی اور قانون کے دباؤ کے باعث بدعنوانی کارجحان کم ہے وہ ان کے قائدین ہوں‘ چاہے وہ عام دکاندار ہو چاہے بڑا برانڈ ہو‘ چاہے چھوٹا کام کرنے والا ہو آپ آنکھ بندکرکے ان پر یقین کرنے پر مجبور ہوتے ہیں آیئے اسکی بے حد چھوٹی سی مثال آپ کو دیتی ہوں یہاں مغرب میں آپ کوئی بھی شے خریدلیں ایک ٹافی سے لیکر گاڑی تک‘ اس کی واپسی کی پالیسی اسی وقت آپ کو مل جاتی ہے کپڑے جوتے‘ گھر کا فرنیچر‘ برتن‘ مرمت‘ ٹی وی‘ فریج‘ غرض کچھ بھی آپ تین مہینے تک واپس کر سکتے ہیں دکاندار آپ سے مڑ کر یہ تک نہیں پوچھے گا کہ کیوں‘ اس میں کیا خرابی ہے‘ اسلئے کہ ان کو معلوم ہے کوئی واپس ہی نہیں کر سکتا اشیاء کی کوالٹی ایسی عمدہ ہے کہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ خراب ہوں اس پر بھی اگر کوئی شے خراب ہے یا آپکو پسند نہیں آئی تو ایک مہینے بعد بھی رسید لے کر جائیں اور واپس کرکے دوسری شے لے آئیں یا پھر اپنے پیسے واپس لے لیں، اسی میں یہاں کی ترقی کا راز پنہاں ہو سکتا ہے، دیانتداری  اور راست بازی دنیا کے کسی بھی شعبے میں بھی ہو ترقی کرنا اس کا فوری نتیجہ ہوتا ہے اور یہ قدرت کا  اصول ہے کہ سچ اور دیانت کی جیت ہوتی ہے۔
اپنے وطن سے محبت کرنا ایک اور خوبی ہے جس کا کسی بھی قوم سے گہرا تعلق ہوتا ہے محبت کرنا یہ نہیں ہوتا کہ میں کہوں مجھے پاکستان سے محبت ہے مجھے پشاور عزیز ہے‘ آپ کو اپنے بچے دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں تو یہ محبت آپ دل کی اندرون گہرائیوں میں محسوس کرتے ہیں دنیا کی ہر آفت اور مصیبت سے اپنے بچے کو بچاتے ہیں اسکو بری صحبت سے بچاتے ہیں کوشش کرتے ہیں کہ میں اگر پیچھے رہ گیا ہوں تو میرا بچہ ضرور آگے بڑھے اور اس بات کیلئے ہزاروں جتن کرتے ہیں لیکن جہاں وطن سے محبت کا تعلق ہے وہی صرف ہم لفظ محبت استعمال کرتے ہیں میں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم اپنے اعمال اور افعال سے اپنے وطن کو نقصان پہنچا رہے ہیں ہم اپنے گھر کا گند‘ گلی میں پھینک کر اسکو گندا کر رہے ہیں ہم گھر میں غریب بچہ یا بچی ملازم رکھ کے‘ پاکستان کے بچوں کو کیا نقصان پہنچا رہے ہیں، ہم انہیں  خود داری سے محروم کر رہے ہیں  جن کے آنے والے تمام بچے بھی آگے بڑھنے کے جذبے سے محروم ہوں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔