نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے جنوری کے مہینہ کے لئے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 5روپے95پیسے اضافہ کر دیا۔سرکاری اعلامیہ کے مطابق حکومت کی اعلان کردہ امداد (سبسڈی)کے تحت 3روپے10پیسے صارف سے وصول کئے جائینگے جبکہ باقی بوجھ وفاقی حکومت برداشت کریگی۔سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی نے جنوری کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 6روپے 10پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی درخواست کی تھی جس پر نیپرا نے28فروری کو سماعت کی تھی۔نیپرا نے سماعت مکمل کرنے کے بعد بجلی 5روپے 95پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری دی تھی۔ اس اضافے کا صارفین پر50ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا تا ہم جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) شامل کرنے کے بعد یہ اضافہ 58ارب روپے سے زیادہ بنے گا۔ خیال رہے کہ 28فروری کو قوم سے خطاب میں وزیر اعظم نے بجلی 5روپے فی یونٹ سستی کرنے کا اعلان کیا تھا۔کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی)نے4ماہ (مارچ سے جون)کی ریلیف مدت کیلئے بجلی کی بنیادی شرح میں 5روپے فی یونٹ کمی کی منظوری دی تھی۔ مذکورہ ریلیف پیکیج کا اطلاق لائف لائن صارفین کے سوا تمام کمرشل اور گھریلو نان ٹائم آف یوز کے صارفین پر ہوگا جن کا ماہانہ 700یونٹس تک کا استعمال ہے، اس پیکیج کے لئے ایک کھرب 36ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ سمری کے مطابق حکومت ماہانہ ایندھن لاگت دسمبر 2021کی کھپت کے حساب سے تمام صارفین پر لاگو ہے۔دوسری جانب نیپرا نے وفاقی حکومت کی جانب سے عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط کے تحت بجلی کے بنیادی ٹیرف میں مزید 95پیسے فی یونٹ اضافے کی درخواست بھی منظور کر لی اور فیصلہ منظوری کے لئے وفاقی حکومت کو ارسال کر دیا ہے۔حکومت کو چاہئے کہ شہریوں پر مزید بوجھ ڈالنے سے گریز کرے۔
جبکہ ملک میں اس وقت بجلی کی قیمت اس قدر زیادہ ہو چکی ہے کہ ایک عام آدمی کے لئے بل جمع کرانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو چکا ہے،وطن عزیز میں سیاسی تناؤ اور کشمکش اپنی جگہ قومی قیادت کو اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے اپنے سے پہلے کے حکمرانوں کو اقتصادی بدحالی اور قرضوں کے حجم میں اضافے کا ذمہ دار ٹھہرایا لیکن مسئلے کے پائیدار حل کی جانب پیش رفت نہیں کی،معیشت کے استحکام کے لئے توانائی بحران کے خاتمے کی جانب ثمر آور اقدامات کی ضرورت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ گزشتہ تقریباً 3سال سے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے ہر طبقہ کے لوگ سخت پریشان ہیں جبکہ اس اضافے کے باعث کمرشل صارفین متعدد مرتبہ احتجاج بھی کر چکے ہیں جبکہ گھریلو صارفین الگ پریشان ہیں۔ اب تک بجلی کے صارفین پر اندازہ اڑھائی سو ارب روپے کا بوجھ ڈالا جا چکا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اب سالانہ یا ششماہی بنیاد پر نہیں بلکہ ہفتہ وار ہوتا نظر آ رہا ہے جبکہ معیشت پہلے ہی شدید دباؤ اور مشکلات کا شکار ہے۔کھربوں روپے کے قرضوں تلے دبی معیشت کو خسارے سے مکمل طور پر نکالنے کے لئے پیداواری لاگت کو کم کرنا ہوگا ایسے میں اگر توانائی بحران برقرار رہتا ہے تو اس ضمن میں اہداف کا حصول انتہائی دشوار ہوگا۔حکومت نے بجلی اور گیس استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کو بھی تشویش وپریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔پاکستان میں مہنگائی جانچنے کا پیمانہ کنزیومر پرائس انڈیکس ہے جسے عام طور پر سی پی آئی کہا جاتا ہے۔
اس انڈیکس کے ذریعے ملک میں مہنگائی کی شرح معلوم کی جاتی ہے۔کنزیومر پرائس انڈیکس میں عمومی استعمال میں آنے والی اشیا ء اور خدمات کا ایک سیٹ بنایا جاتا ہے جسے سی پی آئی باسکٹ کہا جاتا ہے۔ اس باسکٹ میں موجود مختلف چیزوں کی قیمتوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔سی پی آئی باسکٹ کے مطابق ایک پاکستانی اوسطاً 34.58 فیصد کھانے پینے کی اشیا ء پر خرچ کرتا ہے، 26.68 فیصد مکان کے کرائے، بجلی، گیس، پانی کے بلوں اور ایندھن پر، 8.6 فیصد کپڑوں اور جوتوں کی خریداری پر، تقریباً سات فیصد ہوٹلنگ، تقریبا ًچھ فیصد نقل و حمل، چار فیصد سے زائد گھر کی تزئین و آرائش اور مرمت پر، 3.8 فیصد تعلیم اور 2.7 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔اس انڈکس میں بجلی پر اٹھنے والے اخراجات کا حجم بڑھتا ہوا نظر آتا ہے جس کا مطلب صارف کے دیگر اخراجات میں کمی ہے کیونکہ آمدن میں اضافہ نہیں ہو سکا۔جانے قرضوں کے لئے یہ سیدھا سا فارمولہ ہم آئی ایم ایف یا دیگر عالمی اداروں کی صوابدید پر کیوں چھوڑ دیتے ہیں۔بجلی اور تیل کے نرخوں میں مسلسل اضافہ معاشی بگاڑ اور سیاسی بے چینی کا سبب بن رہا ہے،یہ معاملہ حکومت کی ہنگامی توجہ چاہتا ہے۔اس وقت جبکہ عوام کو ریلیف کی توقع اور ضرورت ہے۔ حکومت کو عوام کی مالی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ان دونوں اضافوں کو واپس لینے کا اعلان کرنا چاہئے تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔