زہریلی تنہائی

مغرب کی سردیاں جہاں موسم کی بے شمار سختیاں ساتھ لے کر آتی ہیں وہی پر وہ ڈھیروں تنہائیاں بھی گھڑیوں میں بھر کر تقسیم کرتی پھرتی ہیں گرمیاں تو تفریح اور ہلچل کی سرگرمیاں لئے ہوئے نمودار ہو جاتی ہیں لیکن ان کا جلوہ تھوڑا ہی ہوتا ہے یعنی چند مہینے کا‘ لیکن سردیاں اور اس کے سناٹے ایسے بھی لمبے ہوتے ہیں کہ وہ ہر باشعور بندے کی سٹی گم کر دینے کیلئے کافی ہوتے ہیں یہ تنہائیاں بڑی عمر کے لوگوں کیلئے بڑی جان لیوا ہوتی ہیں گرمیوں کے موسم میں چہل قدمی بھی ہو سکتی ہے کرسی بچھا کر گھر کے پورچ اور لان میں بھی بیٹھا جا سکتا ہے یہاں تک کہ قریبی مال میں کھڑکی کی شاپنگ سے بھی گھنٹوں دل بہلایا جا سکتاہے سردیاں ایسی یہاں کی ظالم ہیں کہ وہ یہ تمام معصوم سرگرمیاں بھی انسان سے یکسر چھین لیتی ہیں ہر انسان کی زندگی میں 60 سال کے بعد کی زندگی ویسے بھی کچھ مایوسیاں اور بے چینیاں لے ہی آتی ہے مغرب ہو یا مشرق یہ ڈھلتی عمر مردوں اور عورتوں کو خاصا بے کل اور بے ترتیب سا بنا دیتی ہے ہمارے ملک  اسلئے خوش نصیب ممالک میں شامل ہوتے ہیں اور ہمارے بوڑھے‘ ہمارے بزرگ اسلئے اچھے ہوتے ہیں کہ انہیں گھر میں ہمسایوں میں‘ رشتہ داروں میں‘ دوستوں میں ایسے لوگ میسر ہوتے ہیں جو ان کی بات کو سنتے ہیں سمجھتے ہیں بلکہ اس بات کا نوٹس بھی لیتے ہیں ان کا خیال بھی رکھا جاتا ہے اور بیماری تکلیف میں کام بھی آیا جاتا ہے اسکے برعکس کینیڈا جیسے برفیلے ملک میں بزرگوں کی زندگی قابل رحم ہوتی ہے تنہائی ان کو برباد کرنے کیلئے کافی ہوتی ہے بڑے سے بڑا دل رکھنے والا بھی چار دن تنہائی نہیں کاٹ سکتا اسکی زبان ترسنے لگتی ہے۔
 بولنے کیلئے اور اسکے کان ترسنے لگتے ہیں آواز سننے کیلئے‘ آپ شاید یقین نہ کریں یہاں ایسے لوگ موجود ہیں جن سے مہینوں بھر کوئی بات بھی نہیں کرتا وہ بالکل اکیلے اپنے گھروں میں اپنی زندگیاں نہایت بے کسی کی حالت میں گزار رہے ہوتے ہیں بغیر اجازت کسی کے گھر کوئی جا نہیں سکتا۔اجنبی لوگوں کو خوش آمدید کہنا یہاں کا دستور نہیں ہے۔ اپنے سگے کب کے چھوڑ کر جاچکے اور یہ وقت روز مرنے اور روز جینے کا ہوتا ہے۔ آنسو آنکھوں سے خود بہ خود ہی باہر آتے رہتے ہیں ایک تقرب میں ہماری دوست اپنے کام کی جگہ کا حال سنا رہی تھی کہ یہاں میرے ساتھ ایسے بزرگ لوگ کام کرتے ہیں جن کی شفٹ ختم ہوجاتی ہے تو وہ گھرجانا ہی نہیں چاہتے اور ان کا بس چلے تو وہ اس دفتر یا کارخانے میں رات بھی گزارنے پر تیار ہو جائیں کیونکہ گھر میں پھرنے والی زہریلی تنہائی ان کو پاگل بناتی ہے۔ وہ منت سماجت پر اتر آتے ہیں کہ ابھی ہم کام کی جگہ پر ہی رکنا چاہتے ہیں اسلئے کہ باہر منوں برف پڑی ہے سردی کی شدت اتنی زیادہ ہے کہ ہڈیاں بھی اندر سے کانپنا شروع ہو جاتی ہیں چاہے آپ کتنے ہی گرم کپڑے پہنے ہوں آپ سڑکوں پر اس عمر میں واک تو نہیں کر سکتے نا‘ ایک اور محترمہ نے اپنے کام کا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے سٹور پر کئی بزرگ عورتیں سیل کے کام میں نوکری کرتی ہیں اور جوں جوں ان کی چھٹی کا وقت قریب ہوتا جاتا ہے انکے رنگ فق ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں کیونکہ وہ گھر جانا نہیں چاہتیں انہیں علم ہے گھر کا لاک کھولتے ہی ناگن جیسی بل کھاتی ہوئی تنہائی اسکو لپک کر اندر لے جائیگی اور سردی کے اس سناٹے میں وہ اور اسکی تنہائی بہت ہی جان لیوا ہوگی‘ میں اس سردیوں بھرے موسم میں اپنی کھڑکی سے دور دور تک نظر دوڑاتی ہوں تو کوئی بندہ بشر نظر نہیں آتا دور کہیں گاڑیاں سڑک پر بھاگتی ہوئی ضرور دکھائی دیتی ہیں برف کی شدت درختوں سے سبزہ کھا چکی ہے کالے اور لمبے درخت جو گھنے بھی ہیں اور لمبی لمبی قطاروں میں بھی ہیں ماحول تو گھمبیر بناتے ہیں سینے میں دھڑکتا ہوا دل ایک دفعہ تو اتھاہ گہرائیوں میں کہیں اپنا آپ گم ہوتا نظر آتا ہے بڑے حوصلے والے لوگ بھی حوصلہ ہارتے ہوئے نظر آتے ہیں پاکستان سے آنیوالے بزرگ بھی یہاں کوئی بڑی آئیڈیل زندگی نہیں گزار رہے ان کی اولادوں کے پاس بھی وافر وقت ان کو دینے کیلئے نہیں ہے اور کم بخت عمر کا یہ تقاضہ کہ وہ اپنے دل کی بھڑاس ضرور ہی کسی اور کوسنا کر خوش ہو سکتا ہے ایسے میں تنہائی اور زبان بندی ظالم نہ ہو تو کیا ہو ان تنہائیوں کو وہ بزرگ زیادہ کامیاب طریقے سے گزارتے ہیں جن کو ٹیلی ویژن دیکھنے کا انتہائی شوق ہوتا ہے یا خواتین جو بڑی عمر میں بھی ٹی وی ڈرامے دیکھ کر دل بہلانے کو ناکام کوشش کرتی ہیں لیکن میرے خیال میں وہ لوگ تنہائی کے سناٹوں سے نبردآزما زیادہ اچھے طریقے سے ہوتے ہیں جو مطالعہ کے شوقین ہوتے ہیں یا ایسے مشترکہ خاندانی نظام میں رہتے ہیں جہاں بچوں کے بچے ان کی خوشیوں کے سامان بن جاتے ہیں۔
 مشترکہ خاندانی نظام کی باتیں ہمارے ملکوں میں کو ٹھیک لگتی ہیں لیکن مغرب میں تو خاندانی نظام اور وہ بھی مشترکہ دونوں ہی ناممکنات میں سے ہیں تو بزرگوں کو ظالم تنہائیوں کا سامنا پوری شدومد سے کرنا پڑ جاتا ہے اس لئے مغرب میں اولڈ ہوم یا بزرگوں کے مشترکہ گھر کثرت سے بنائے جاتے ہیں جہاں ان کو بہت جو ان رضاکار باتیں کرنے‘ خیال رکھنے اور اکٹھے رہنے کو مل جاتے ہیں لیکن اب بھی لاکھوں لوگ آخر عمری  میں اکیلے گھروں میں رہتے ہیں اور ان کی زندگیاں تنہائی کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے گزر جاتی ہیں ایسا وقت بھی بہت جلد ان کی زندگی میں آجاتا ہے کہ وہ خود کلامی کا شکار ہو جاتے ہیں جہاں خود سے بات کرنا خود کو جواب دینا کا مرحلہ آجاتا ہے اور اسی خود کلامی میں وہ چلتے پھرتے نظرآ تے ہیں ہمارے دیہاتوں میں رہنے والے بزرگ بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ ان کے بچے اک ایسے نظام میں رہتے ہیں جہاں بزرگوں کی دعائیں لینا ان کا خیال رکھنا ان سے نصیحتیں سننا ان کی عزت و تکریم کرنا ان کے خون میں شامل ہوتا ہے۔