بچت ایک ایسا عمل ہے جو خرچ کے ہر شعبے میں مفید نتائج پیدا کرتا ہے مالیاتی بچت افراد‘ جماعت(کمیونٹی) اور ملک سب کیلئے فائدہ مندہے۔ہمارے یہاں ملکی بچتوں کا حجم اورمجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے ان کی شرح کی سطح بہت کم ہے یہ قطعی طور پر نہ تو حقیقت پسندانہ ہے اور نہ بڑھتے ہوئے معاشی حالات سے کوئی مطابقت رکھتی ہے۔”ایشیا کے تقریبا تمام ممالک میں،معدودے چند مستثنیات کے بچتوں کی شرح تقریبا 23 فیصدی ہے“جبکہ بعض ملکوں کی فی کس قومی آمدنی ہم سے کم ہے جبکہ ہمارے ہاں گزشتہ پینتیس سال میں یہ شرح 11.2 فیصد، 1970 ء کی دہائی کا اوسط اور 18.1 فی صد(01-02)کے درمیان گھومتی رہی۔ پاکستان میں بچت کی 14 فیصدی شرح دنیا میں سب سے کم ہے سرمایہ کاری کیلئے اس میں اضافے کی شدید ضرورت ہے۔برطانوی راج میں بر صغیر بڑا غریب علاقہ تھا 1931ء میں ایک ہندوستانی کی فی کس آمدنی کا اوسط 62 روپے تین آنے تین پائی تھا۔گورنروں،فوج کے اعلیٰ افسروں، ججوں‘ کمشنروں‘ڈپٹی کلکٹروں‘ سول سرجنوں‘چیف انجینئروں،سیکرٹریوں،اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کی تنخواہیں تو ہزارو،دو ہزار سے اوپر تھیں بڑی ارزانی کا دور تھا اس لئے گزارہ بھی ہو جاتا تھا اور لوگ کچھ بچت بھی کر لیا کرتے تھے انیس سو اکتیس تک شہری آبادی تیرہ فیصد تھی اور ایک لاکھ سے زائد آبادی والے شہر پینتیس تھے گو بینک کھل چکے تھے مگر ان کی تعداد بڑی کم تھی اور عوام ان کو سرکاری ادارہ سمجھ کرخوف کھاتے تھے۔حکومت نے عوام کو بچت کی عادت ڈالنے کیلئے ڈاک خانوں میں سیونگ بینک کا شعبہ قائم کیا جہاں دو روپے کے حساب سے اکاؤنٹ کھولا جا سکتا تھا۔اور اس پر ایک اعشاریہ پانچ یا دو فیصد سالانہ سود ملا کرتا تھا،پھر بھی کئی کروڑ کی رقم جمع ہوجاتی تھی۔قیام پاکستان کے ابتدائی دور میں ملک کا سارا بنکاری نظام ہی الٹ پلٹ گیا ہے گنے چنے بینک اور محدود ڈاک خانے چھوٹے پیمانے پر یہ کاروبار کرتے رہے اس نظام کو منظم کرنے اور فروغ دینے کیلے حکومت نے وزارت مالیات کے تحت سینٹرل ڈائریکٹر یٹ آف نیشنل سیونگز کا محکمہ بنایا جس نے وقتا فوقتا ناموں اور مدت کے لحاظ سے مختلف سکیموں کے اجراء کی ذمہ داری سنبھالی ان کو نیشنل سیونگز اسکیم (این ایس ایس)کہا جاتا ہے ان میں رد و بدل ہوتا رہا بعض سکمیوں کو ختم کر دیا چند نئی سکیمیں شروع کی گئیں اس وقت ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹ،اکاوٗنٹ،بہبود سیونگ سر ٹیفیکیٹ،سیونگ اکاوٗنٹ،پنشنرز بینیفٹ اکاوٗنٹ اور انعامی بانڈز کی سکیمیں زیر عمل ہیں ان میں مجموعی حیثیت سے کوئی چالیس افراد کسی نہ کسی حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں ان میں کچھ عرصے قبل تک سب سے زیادہ مقبول سکیم اڈیفنس سرٹیفکیٹ کی تھی جس میں دس سال میں ابتدائی رقم تقریبا چوگنی ہو جایا کرتی ہے جبکہ سولہ فیصد کے قریب کمپاوٗنڈ منافع ملا کرتا تھا۔دوسری سکیموں پر بھی منافع کی شرح اچھی خاصی تھی۔گزشتہ روزحکومت نے قومی بچت کی سکیموں اور سینٹرل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگز کے اکانٹس کے شرح منافع پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے اضافہ کردیا۔جس کے تحت بہبوداورپینشن سرٹیفکیٹ سمیت ریگولر،اسپیشل اور ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکٹ کا منافع بڑھا دیا گیا ہے۔ نیشنل سیونگز نے سپیشل سیونگ کی شرح منافع ایک فیصد اضافے سے 11 فیصد، ریگولر سیونگ سرٹیفیکٹ کی شرح منافع اعشاریہ 84 فیصد اضافے سے 11 اعشاریہ 4 فیصد، بہبود اور پینشن سرٹیفیکٹ کی شرح منافع اعشاریہ 48 فیصد اضافے سے 12 اعشاریہ 72 فیصد اور ڈیفنس سیونگ سرٹیفیکٹ کی شرح منافع اعشاریہ 60 فیصد اضافے سے 10 اعشاریہ 92 فیصد کرنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ سیونگ اکاؤنٹ کے منافع میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا۔سیونگ اکاؤنٹ کا منافع8اعشاریہ 25فیصد پر ہی برقرار ہے۔شرح منافع میں تبدیلی کا اطلاق یکم اپریل سے ہوگیا ہے۔اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ضرورت مند لوگوں کو ریلیف دینے کیلئے بچت سکیم کی شرح میں حوصلہ افزا اضافہ کیا جاتارہے تاکہ ان کی زندگی آسانی سے گزر بسر ہوسکے۔