آنکھوں کا خراج آنسوؤں سے

رمضان کا پاکیزہ مہینہ کینیڈا میں بھی شروع ہو چکا ہے اور مسلمانوں کی طرف سے پوری کوشش کی جارہی ہے کہ اس مہینے کا وقار اور شان برقرار رہے مغرب اور مشرق کے رمضان میں بڑے واضح فرق ہیں روزہ تو وہی ہے فجر سے مغرب تک اللہ کی خوشنودی کی خاطر بھوک پیاس برداشت کرنا لیکن زندگی کے باقی لوازمات میں فرق صاف ظاہر ہوتا ہے مشرق میں چونکہ صرف اپنے ملک پاکستان کے رمضان کا وسیع تجربہ مجھے حاصل ہے اسلئے میں کہہ سکتی ہوں کہ پشاور اور اسلام آباد کے رمضان اور یہاں کینیڈا کے ایک پوش شہر میں بیٹھے ہوئے میں کیا محسوس کرتی ہوں یا میری طرح کا‘ میری عمر کا اور اس عمر میں خاص سوچ رکھنے والے انسانوں کا یہاں رمضان کیسا گزرتا ہوگا کینیڈا میں روزے کا آغاز ایسا ہوتا ہے کہ وہ پاکستان سے15 گھنٹے کی فضائی دوری پر ہے اور اتنے ہی گھنٹے کا ٹائم زون کا بھی فرق ہے سعودی عرب سے بھی تھوڑی سی کمی بیشی کرکے اتنی ہی دوری بنتی ہے اسلئے عید اور روزے کو لے کر خاص طور پر اپنے اپنے ملکوں کے چاند کو لیکر سب لوگ اچانک ہی حساس ہو جاتے ہیں۔ افغانستان کی ایک نہایت پیاری خاتون میرے دوستوں میں شامل ہے آئی تو تھی ریفوجی کلیم پر لیکن خوش قسمت ایسی کہ اکلوتے چھوٹے بیٹے کو کینیڈا کے سب سے بہترین سکول میں داخلہ مل گیا ایسا سکول جہاں امیر ترین ماں باپ کے بچے پڑھتے ہیں اور جب وہ تعلیم حاصل کرکے نکلتے ہیں تو کچھ بن کر ہی۔
 اس سکول میں کچھ سیٹیں غریب اور سفید پوش بچوں کیلئے ہوتی ہیں اور پیمانہ لیاقت ہوتا ہے یہ افغانی بچہ اپنی قابلیت سے اس سکول میں داخل کرلیاگیا یوں یہ خوش قسمت ماں اب اپنے آپ کو افغان مہاجر نہیں کہہ سکتی اسکا مستقبل بچے کی وجہ سے تابناک ہے خیر یہ ذکر تو ویسے ہی آگیا افغانی دوست سے ملی تو پوچھا روزہ کب رکھ رہی ہو کہنے لگی میں تو افغانستان کے مطابق روزہ رکھتی ہوتی ہوں۔ اسکا جواب مجھے حیران کرنے کیلئے کافی ہے کیونکہ افغانستان کینیڈا سے چاند کے معاملے میں دو دن آگے ہے تو یہاں کے مسلمانوں کو آج بھی اپنے اپنے ملک سے اتنی محبت ہے کہ وہ اپنے ملک کے نکلنے والے چاند سے نظریں ہٹانے کو تیار نہیں ہیں۔کینیڈا میں نارتھ امریکن رویت ہلال کمیٹی ہے انتاریورویت ہلال کمیٹی ہے اور سب سے بڑھ کر ہر علاقے کی اپنی مسجد موجود ہے جو ظاہر ہے یہاں کی مرکزی رویت ہلال کمیٹیوں سے جڑی ہوئی ہوتی ہے  یہاں کی خاتون خانہ کا حال پوچھیں تو وہ یہاں کینیڈا میں بھی روح افزا کھجوریں اورپاکستانی بیسن وچنے ڈھونڈتی پھرتی ہے۔ شان کا چاٹ مصالحہ اور املی اسکے علاوہ ہے پاکستانی کینیڈا ضرور آگئے ہیں لیکن کھانے کے معاملے میں آج تک اپنی سبزی منڈیوں اور مارکیٹوں میں گھومتے پھرتے نظرآتے ہیں کوشش ہوتی ہے کہ افطار دسترخوان پر وہ سب کچھ موجود ہو جو پاکستان میں چھوڑ آئے ہیں پاکستانی لیموں‘ پاکستانی بھنڈیاں‘ پاکستانی گوبھی اور پاکستانی پکوڑے‘ غرض اس کوشش میں دیسی دکانوں اور ان کے مالکان کی چاندی ہوجاتی ہے۔
جیسے رمضان میں مصنوعی مہنگائی کا رجحان ہمارا کلچر ہے وہ کلچر یہاں ایک فیصد بھی کم نہیں ہے اپنے ہم وطنوں کی جیبوں کو خالی کرنا یہاں کی بھی روایت چلی آرہی ہے مجھے تو ذاتی طور پر جو کمی محسوس ہوتی ہے وہ مسجد سے آئی ہوئی اذان کی آواز ہے جو مغرب اور فجر کے وقت خاص طور پر اپنے محلے سے گونجتی ہوئی اب بھی کانوں میں آتی ہے اور میں ہر ایک کو سودا سلف لاتے ہوئے افطار اور سحر کے اوقات کا چارٹ لانے کی تاکید کرتی ہوں یہ چارٹ اب تو انٹرنیٹ پر بھی میسر ہے لیکن میں سوچتی ہوں کہ اذان نہیں ہے تو کم از کم میں چارٹ کو ہاتھ لگاکر اور ا س کے اوقات دیکھ کر تو اپنی تسلی کر سکتی ہوں ہر روزے کا کھولنے اور بند کرنے کاوقت کئی کئی منٹ آگے پیچھے ہوتا رہتا ہے بوڑھے لوگ جوان بچوں سے کب تک اوقات افطار و سحر پوچھ پوچھ کر انکو تنگ کرتے رہیں بہتر ہے خود اس کو دیکھ کر جان لیا جائے آپ کو اس چارٹ کو دیکھنے‘ ہاتھ لگاکر محسوس کرنے کی خوش بیانی نہیں کی جاسکتی۔اکثر پشاور میں اپنی مسجد کی اذان کو محسوس کرتی ہوں کہ جیسے محلے کے بے شمار بچوں کے ساتھ مسجد کے سامنے اذان کے انتظار میں کھڑی ہوں۔
مؤذن کا سب سے پہلے کھجور کھا کر اپناروزہ افطار کرنا اور پھر اللہ اکبر کہنا کبھی بچپن کی یادوں سے محو نہیں ہو سکتا وہ گلیاں وہ محلے‘ جہاں افطار کے وقت ہجوم بیکراں اپنے گھروں کی طرف افطار کیلئے ایسے روانہ ہوتا تھا کہ ہر ایک کے ہاتھ میں لفافے ہوتے تھے لال چٹنی کے‘ کچالو پیڑے کے فروٹ کے اور ستلی میں بندھی ہوئی برف کے‘ گھروں میں ان کی خواتین خانہ صرف اپنے مردوں کی پسند کے کھانے پکانے میں مصروف ہوتیں‘ دسترخوان پر ہر وہ چیز ہوتی جو ان کے بھائیوں‘ اور خاوند کو پسند ہوتی‘اپنی پسند کو ان دنوں کوئی اہمیت کی بات نہیں تھی خواتین اور بھی بہت سی دعائیں یقینا کرتی ہوں گی ہاں ایک دعا ہر ایک کے لبوں پر ہوتی تھی کہ اے خدا ہر کھانا اپنے نمک مرچ کے لحاظ سے ان کے مردوں کو پسند آجائے‘ کیسی سادہ اور صاف دل عورتیں تھیں رمضان جب بھی آتا ہے کہ جانے مجھے اپنی ماں‘ ماسی‘ نانی‘ اپنی ہمسائیاں‘ سب کیوں یادآجاتی ہیں جو سب سے اچھا کھانا اپنے آدمیوں کیلئے رکھتی تھیں اور وہ آدمی کہ ملائی کے بغیر وہ سحری کرنے کے روادار نہیں ہوتے تھے اصلی گھی کے پراٹھوں کی خوشبوئیں کہیں آس پاس ہی بکھر جاتی ہیں اور آنکھیں آنسوؤں سے ان خوبصورت چہروں کو خراج پیش کرنے لگ جاتی ہیں۔