پل پل حیران کر دینے والے ہالی وڈ سٹوڈیوز

آج صبح حسب معمول میں انجو کے باورچی خانے سے دو کافی کے کپ لے کر آئی‘ آج ہمارا ہالی وڈ میں یونیورسل سٹوڈیوز دیکھنے کا پروگرام ہے‘ میں نے انجو کے ساتھ مل کر سینڈوچز بنائے۔ تقریباً 10 بجے صبح ہم پورے جوش و خروش سے ہالی وڈ کی طرف چل پڑے‘ ہالی وڈ جو پروڈکشن اور ڈائریکشن کے میدان کا مرکز ہے‘ جہاں دنیا کی بہترین فلمیں اور ڈاکومنٹریز تخلیق ہوتی ہیں‘ جہاں کے فنکاروں اور اداکاروں کا دنیا میں نام اور مقام ہے۔ امریکہ نے اپنے اس چھوٹے سے تخلیقی شہر کو اجاگر کرنے میں کوئی کمال ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ہالی وڈ لاس اینجلس شہر سے صرف پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر ہے‘ سڑک تنگ ہو جاتی ہے اور روشنیاں بڑھ جاتی ہیں‘ یونیورسل سٹی شروع ہو جاتا ہے‘ دنیا کے وہ عظیم سٹوڈیوز جہاں عظیم فلمیں تخلیق کی گئیں یعنی یونیورسل سٹوڈیوز کا شہر۔
 حیرت انگیز ٹیکنالوجی کا مرکز‘ حیرت انگیز دماغوں کا مرکز‘ ہالی وڈ دیکھنے کا خواب کسی بھی تخلیق کار کا ہو سکتا ہے اور مجھے بھی علم نہیں تھا کہ میں اپنی زندگی میں کبھی ہالی وڈ کے سٹوڈیوز اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں گی اور ان میں چل پھر سکوں گی اور میں سچ میں ان کو دیکھ رہی تھی۔ ہم نے پارکنگ ایریا میں اپنی گاڑی کھڑی کی اور دھڑکتے دل کے ساتھ یونیورسل سٹوڈیوز میں داخل ہوئے۔ ہم دنیا کے اس حیرت انگیز شہر سے لطف اندوز ہونے آئے تھے۔ اگر سال بھر کا داخلے کا ٹکٹ لیں تو وہ ایک فرد کا 65 ڈالر کا ہوتا ہے اور ایک دن کا ٹکٹ 45 ڈالر کا ہے اور یہ سن ہے 2001ء۔ آج 21سال گزرنے کے بعد یقینا یہ ٹکٹ بڑھ کر دو گنا ہو گئے ہوں گے لیکن امریکہ کینیڈا میں مہنگائی کی شرح بہت تیزی سے نہیں بڑھتی۔ ہم نے تین ٹکٹ لئے اور اپنا سامان اس غرض سے چیک کروایا کہ سٹوڈیوز کے اندر جایا جا سکے لیکن گیٹ والوں نے ہمارے فوڈ پر اعتراض کر دیا‘ سینڈوچز اور ڈرنکس کے ساتھ ہم اندر نہیں جا سکتے تھے۔
 ظاہر ہے اندر بے شمار ریسٹورنٹ ہیں‘ اگر سب سیاح اپنا اپنا فوڈ اندر لے جائیں گے تو بزنس کیسے چلے گا۔ ہم نے اگرچہ ان کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم مسلمان مخصوص اشیاء ہی کھا سکتے ہیں لیکن یہ وجہ انتظامیہ نے ماننے سے انکار کر دیا۔ دل نہیں مانتا تھا کہ اپنے بنائے ہوئے سینڈوچز کو گاربیج کر دیا جائے سو ہم نے ان کو کھا لینا مناسب سمجھا‘ سو ہم نے ایسا ہی کیا اور ڈرنک بھی اپنے اپنے حصے کی پی لی اور اب سب ٹھیک تھا‘ ہم اندر جا سکتے تھے۔ ہالی وڈ سے حکومت امریکہ کو جس پیمانے کی انکم ہو رہی ہے سٹوڈیوز کے اندر جا کر معلوم ہوا۔ بہترین دکانیں جن پر فلموں سے متعلقہ ثقافتی اشیاء بک رہی تھیں‘ ایسے بہترین ریسٹورنٹ اور اعلیٰ پائے کے کیفے دیکھ کر حیرت نہیں ہوئی۔ امریکہ پل پل آپ کو حیران کرتا رہتا ہے‘ یہ خوابیدہ شہر اپنے اندر خوبصورت ترین دنیا لئے موجود تھا۔ ہم نے یورنیورسل سٹی کا نقشہ ہاتھ میں پکڑا اور اس کی کھوج شروع کر دی۔ 
ہم ممی ہاؤس (Mummy House) میں داخل ہوئے جہاں ہاتھ سے بنائی ہوئی ممیز رکھی ہوئی تھیں‘ ایک لمبی اندھیری غار تھی تقریباً آدھ کلومیٹر فاصلہ گھیرتی تھی‘ وہاں نیلی روشنیاں تھیں اور ماحول ایک دم ڈراؤنا تھا‘ کوئی ممی لٹکی ہوئی تھی‘ کوئی تابوت میں مردہ حالت میں ساکت پڑی ہوئی انتہائی خوفناک منظر پیش کر رہی تھی اور کوئی شیشے کے اندر لیکن کوئی بھی ممی کسی بھی وقت کسی بھی سیاح پر حملہ کر سکتی تھی۔ سیاحوں کی قطاریں اور ممیز کا قبرستان خوفناک ماحول‘ سیاحوں کی چیخ و پکار سب کچھ غار کے اندر ماحول کو مزید بھیانک بنانے کیلئے کافی ہے اور پھر آدھا کلومیٹر راستہ بالآخر اختتام پذیر ہو جاتا ہے اور سیاح Exit ہو کر باہر روشنیوں میں نکل آتا ہے لیکن وہ ایسے ڈراؤنے ماحول سے نکلتا ہے کہ کئی گھنٹوں تک اس کے دماغ پر اس کا اثر طاری رہتا ہے۔ یہ غار تخلیق کاروں کی بہترین کاوشوں کی بھرپور عکاس ہے لیکن یہ تو آغاز ہے۔ چونکہ یونیورسل سٹوڈیو ایکڑوں کے رقبے پر مشتمل ہے اس لئے پیدل ان کو گھوم پھر کر دیکھنا ناممکن ہے اس لئے اندر ہی ایسے سٹاپس (Stops) بنا دیئے گئے ہیں جہاں سیاح ایسی گاڑیاں لے سکتے ہیں جو ان کو پورے سٹوڈیوز میں گھماتی ہیں اور جگہ جگہ رک کر تفریح کا ذریعہ بنتی ہیں۔
 یہ چھوٹے چھوٹے بس نما ڈبے ایک دوسرے کے ساتھ زنجیر طرح جڑے ہوتے ہیں اور ہر پندرہ منٹ کے بعد اپنے سٹاپ پر آ کے رکتی ہے۔ قطار بہت لمبی ہے لیکن ہمارا نمبر جلدی آ گیا ہے اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ یہاں ایک گائیڈ بھی موجود ہے جو اپنی رواں رننگ کمنٹری کے ساتھ پورے یونیورسل سٹوڈیوز کا چکر لگواتا ہے جو یقینا پیدل ناممکن ہو سکتا ہے اور پیدل چلنے والے لوگوں کو اکثر سٹوڈیوز کے قریب جانے بھی نہیں دیا جاتا اور یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انتہائی تاریخی اہمیت کے حامل سٹوڈیوز کو وہ عام پبلک کے معائنے کیلئے اور ان کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ یہ سٹوڈیو دنیا کے مختلف شہروں کے طرز پر ڈیزائن کئے گئے‘ کوئی سٹوڈیو یورپ کا مشہور شہر لندن ہے اور کوئی روم کی کسی گلی کا نقشہ پیش کر رہا ہے‘ کوئی سٹوڈیو میکسیکو کا شہر ہے تو کوئی فرانس کا شہر پیرس ہے اور تخلیق کاری ایسی کہ ہوبہو یہ شہر کاپی کئے گئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ فلموں میں فلماتے ہوئے مختلف شہروں کے مناظر ہالی وڈ کے اپنے سٹوڈیوز میں ہی موجود ہیں۔ ان کو ہر دفعہ مختلف شہروں میں جانا نہیں پڑتا بلکہ یہ تخلیقات ان کی خود سے بنائی گئی ہیں۔