سردی کی شدتوں کے باعث گھر ایسی کھڑکیوں سے محروم ہیں جو پوری کی پوری کھل جاتی ہیں اور تازہ ہوائیں سارے گھر کا طواف کرتی ہوتی آتی اور جاتی رہتی ہیں تمام گھروں میں اور عمارتوں میں بھی اندرونی طور پر گرم ہیٹرز اور ان میں سے آتی ہوئی گرم ہواؤں کا نظام لگاہوتا ہے وہی نظام جو سردیوں میں گرم ہوا سے پورے گھر کو گرم رکھتا ہے گرمیوں میں ان کو ٹھنڈا کر دیتاہے۔ گھر کے سربراہ اسکو اپنے گھر اور عمارت کے مطابق ٹھیک کرتے رہتے ہیں یہاں کے لوگوں کو خاموش رہنا پسند ہے زیادہ باتیں کرنا کسی طور پر بھی پسند نہیں کرتے میں جب بھی باہر نظر دوڑاتی ہوں گلیوں میں ہو کا عالم ہے ہر گھر کے سامنے گاڑیاں کھڑی ہیں اندر گھر کے مکین بھی موجود ہیں گلی میں موجود پچاس ساٹھ گھر جیسے ساکت عمارتیں ہیں بس کوئی مکین نکلتا ہے اپنی کھڑی ہوئی گاڑی کو سٹارٹ کرتاہے اورچلا جاتا ہے جب بھی وہ واپس آتا ہے وہی عمل دہراتا ہے گاڑی کو پارک کرتا ہے دروازہ کھولتا ہے اور چلا جاتا ہے دروازے کھٹکٹھانے کی آوازیں ہمارے ملک میں ہی وافر آنے کا رواج ہے یہاں ہر مکین کے پاس اپنی چابی ہے وہ رات دن کے کسی بھی حصے میں بھی گھر آئیں خود ہی دروازہ کھول کر اندر آجاتے ہیں ہاں آپ پیدل جارہے ہیں اور کوئی انجان بھی آپ کے سامنے سے پیدل آرہا ہے یا اپنے کتے کو ٹہلانے کیلئے نکلا ہوا ہے تو وہ ضرور آپ کو گڈمارننگ یا گڈ آفٹرنون کہے گا۔
پارک میں چلے جاؤ تو کینیڈین گورے تو ضرور ہیلو ہائے کرتے ہیں لیکن مجال ہے اپنے دیسی‘ پاکستانی‘ سکھ اور ہندو آپس میں مسکراہٹوں کا ہی تبادلہ کرلیں‘ پاکستان کی عورتیں خاصی مغرور ہیں وہ تو دوسروں کو خاطر میں کم کم ہی لاتی ہیں کبھی کبھار مجھے ایسی خواتین نظر آجائیں جو سلام میں پہل کر یں تو میں واقعی میں حیران ہو جاتی ہوں جیسے جیسے دیسی لوگ اپنے گھر بساتے جاتے ہیں کینیڈین گورے گوریاں ان کی گلیاں چھوڑ دیتے ہیں اور دور کہیں بہت دور اپنی نئی بستیاں بسانے کیلئے چلے جاتے ہیں اب تو یہ عالم ہے کہ خال خال کوئی سفید چمڑی والاانسان نظرآتا ہے ہر طرف سکھوں کے پگڑ‘ اور کمر میں لٹکی ہوئی کرپانیں، مسلمان بزرگ عورتوں کے دوپٹے اوڑھے ہوئے جسم اور ہندوؤں کے ماتھے پر لگائے ہوئے ٹیکے نظرآتے ہیں یہاں کے اصل مکین گورے کینیڈین کو اپنی حکومتوں کا یوں غریب ملکوں سے لوگوں کو بلوانا اور آباد کرنا سخت ترین برا لگتا ہے وہ اس حرکت کو برا ترین سمجھتے ہیں لیکن آنے والوں کیلئے کوئی مصیبت پیدا نہیں کرتے بس دل سے اچھا نہیں سمجھتے۔
ان کے بقول باہر سے آنے والے صفائی کا خیال نہیں رکھتے اور وہ سچ کہتے ہیں دیسیوں کے گھروں کے سامنے رکھے ہوئے گاربیج بکس جو مہینے میں ایک دفعہ شہر کی میونسپل کمیٹی کے ٹرک اٹھانے کیلئے آتے ہی ان کی بدبو پوری گلی میں پھیل جاتی ہے۔ ہم یہاں رہنے کیلئے آگئے ہیں لیکن ہمارے طورطریقے ذرا بھی نہیں بدلے جن کو گورے مکین قطعاً برداشت نہیں کرتے ہم میں سے زیادہ بولنے کی عادت اکثر ہی لوگوں کی ہوتی ہے جس کا مظاہرہ ہم ہوٹلوں‘ ریستورانوں‘ ہسپتالوں اور سکولوں میں کرتے رہتے ہیں جب بھی کوئی ہلچل کا ساسماں پیدا ہو جائے بس سمجھ لیا جائے کہ دیسی لوگ اپنی ثقافت سمیت تشریف لے آئے ہیں اور زیادہ باتیں کرنا اب ہماری ثقافتوں کا ایک ضروری حصہ بنتا جارہا ہے کینیڈا کے دفاتر میں جب کسی سے سوال جواب کا سیشن ہو تو زیادہ بولنا سامنے والے کو ناپسند ہوتا ہے جتنا پوچھا جائے بس اسی کا جواب دینا بہتر سمجھا جاتا ہے ورنہ شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ہمیں عادت ہے ذرا تفصیل سے اور سیاق و سباق کے حوالے دیکر بات کرنا‘ جو یہ والا حربہ ناکام ہوتا ہے ہفتہ اتوار تو ایسے دن ہیں کہ آپ اپنی گلی میں سوئی گرادیں اسکی بھی شاید آواز آجائے اک ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو شاید کسی شاعر کا مصرعہ تھا جو میں نے یہاں لکھ دیا جب بھی میں کینیڈا سے پاکستان آتی ہوں۔
ہارن کی آواز سن سن کر میرے کان بھی میری طرح دیوانے ہو جاتے ہیں گاڑی میں بیٹھتے ہی جس طرح ہمارے ڈرائیور ہارن پر ہارن بجاتے ہیں ہماری عوام کا دل بہت بڑا ہے یقینا ان کے کان‘ دماغ‘ برداشت تمام ہی قابل ستائش ہیں کینیڈیا میں ہارن بجانا ایسا ہے جیسا آپ نے کسی کے منہ پر طمانچہ رسید کردیا ہے دو موقعوں پر ہارن بجایا جاسکتا ہے یا تو کسی ڈرائیور نے غلط ڈرائیو کرنے کی حرکت کی ہے جیسے غلط اوورٹیک کرلی ہے اشارہ توڑنے کی ناکام کوشش کی ہے چوراہے پر لگی ہوئی سفید لکیر سے بھی آگے اپنی گاڑی کھڑی کردی ہے اور اس طرح کی ہی کوئی غلط حرکت جس پر کسی اور ڈرائیور کو تکلیف ہوتی ہو دوسرا موقعہ وہ ہے جو بظاہر خوشی کا موقعہ ہے کہ شادی شدہ جوڑا اپنی گاڑی میں بیٹھا ہے اس کے رشتہ دار اپنی اپنی گاڑیوں میں چرچ سے ابھی ابھی نکلے ہیں بہت خوش ہیں اور اس خوشی کا اظہار وہ ہارن بجا کر کرتے ہیں بارات میں شامل ہر گاڑی اپنا ہارن بجاتی ہے جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ دیکھو ہم سب نئی زندگی میں آنے والے ایک حسین جوڑے کی خوشیوں میں خوش ہو رہے ہیں۔
آپ نے محاورہ تو سنا ہے کہ خاموشی سونے کی مانند ہے یہ قیمتی سونا یہاں کینیڈا میں بہت زیادہ ہے ایسا جیسے نیند کے بعد کسی شخص کو فریش اور تروتازہ محسوس ہوتاہے اس طرح سارا دن کان ایسے سکون سے ہوتے ہیں کہ آ پکو ہارن سمیت کسی بھی قسم کی آواز سنائی نہیں دیتی بس وہ شور بھی اب ناقابل برداشت ہوجاتا ہے جو ہمارے اپنے گھروں میں ہماری روایات کے مطابق برپا ہوتا ہے۔