عید الفطر کا سنتے ہی ساری دنیا کے مسلمانوں کے ذہن میں سب سے پہلا لفظ جو آتا ہے وہ ہے خوشی اور کیوں نہ ہو۔ رحمتوں اور برکتوں والے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد عید کی صورت میں جو خوشیوں کی سوغات ملتی ہے اس کی اہمیت ایک مسلمان روزہ دار ہی سمجھ سکتا ہے۔اس خوشیوں بھرے دن کیلئے ہر گھر میں بڑھ چڑھ کر اہتمام کیا جاتا ہے اور اس اہتمام میں گھر کی صفائی سجاوٹ اور سب سے بڑھ کر کپڑوں کی تیاری سر فہرست ہے۔عید کی آمد ہے چند ہی دن بعد جب فرزند ان توحید ایک ماہ کی روح پرورمشقت کے بعد اس کی اجرت پائیں گے تو وہ کتنے نہال اور شادماں ہوں گے کہ اللہ رب العزت نے ان کی اس مشقت کا صلہ کتنا جلدی ان کو عطا کر دیا کیوں کہ رب العالمین کا فرمان ہے کہ "رمضان کے روزے میرے لئے ہیں اور میں ہی اس کا اجر دوں گا"اس فرمان سے روزے اور اس کے اجر کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اسی لئے اس دن ایک ناقابل بیان خوشی اور مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ اس دن کسی بھی شخص کے ماتھے پر شکن کے آثار دکھائی نہیں دیتے بلکہ سب سے بڑی بات تو یہ ہوتی ہے کہ دلوں میں پالنے والی کدورتوں اور رنجشوں کو بھلا دیا جاتا ہے۔ ایک دوسرے سے گلے لگ کر سارے گلے شکوے دور ہوتے ہیں اور یہ پورے ایک ماہ کی روحانی تربیت کا اثر ہی ہوتا ہے کہ فرزاندان توحید کو اس دن وہ خوشی نصیب ہوتی ہے جو کروڑوں روپے خرچ کرکے بھی نہیں حاصل کی جاسکتی۔ایک زمانہ تھا جب کسی کو عید کارڈ بذریعہ پوسٹ مین موصول ہوتا تھا تو گھر والوں کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔کیا بچے'بوڑھے'عورتیں سب کارڈکو چھو کر دیکھتے تھے۔یہ ایک سادہ سا عید کارڈ ہوتا تھا جس پر مسجد کے خوبصورت مینار ہوا کرتے تھے اور اس کی اوٹ سے عید کا چاند مسکرارہا ہوتا تھا۔بڑے مزے مزے کے کارڈ ہوا کرتے تھے اور یکم رمضان سے ہی عید کارڈز کے سٹالز سج جایا کرتے تھے۔شاپنگ کرنے سے زیادہ عید کارڈ خرید کر خوشی ہوتی تھی مگر اب تو سب کچھ موبائل میں سمٹ گیا ہے۔کارڈ تو رہا ایک طرف کارڈ پر عید کیک بھی بھجوا دیا جاتا ہے۔البتہ سائنس ٹیکنالوجی نے اتنی مہربانی کی جو کارڈ20روپے میں مل جاتا تھا وہ 10پیسے کے خرچ پر موبائل کے ذریعے آپ کے کسی پیارے تک پہنچ جاتا ہے۔اب کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ عید کارڈ خرید نے مارکیٹ میں جائے۔اور پھر اسے پہنچاتا پھرے۔عید الفطر رمضان المبارک کے اختتام پر یکم شوال کو پوری دنیا کے مسلمان مناتے ہیں اور سب خوشی کا اظہار اپنے علاقائی کلچر کے مطابق کرتے ہیں۔ عید سے پہلے رمضان کے آخری عشرے میں والدین اپنی شادی شدہ بیٹیوں کے گھر جاتے ہیں اور ان کیلئے مختلف اشیاء ضرورت خرید کر انہیں تحفہ دیتے ہیں۔اس کیلئے ”عید“دینے کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔جس لڑکی کے والدین زندہ نہ ہوں تو اس کے بھائیوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ یہ فریضہ سر انجام دیں۔عید کے قریب لڑکی کو بھی انتظار رہتا ہے اور اس کی نگاہیں گھر کے دروازے پر ٹکی ہوتی ہیں کہ کب اس کے میکے سے کوئی آئے۔یہ رسم بھی محض لین دین کا نام نہیں بلکہ اس کا مقصد آپس میں محبت کے جذبات کو تقویت دینا اور اس کی آڑ میں اپنے غریب بہن بھائیوں کی امداد کرنا بھی مقصود ہوتا ہے۔ اور یوں یہ خوبصورت روایت اپنے اندر ایک خوبصورت مقصد کو بھی سموئے ہوئی ہے۔عید کی خوشیوں میں ان لوگوں کو اپنے ساتھ شریک کرنا ایک بہت نیک کام ہے جن کو مالی مشکلات کا سامنا ہے ۔اگر چہ مہنگائی نے ہر کسی کی مدد کرنے کی استطاعت کو متاثر کیاہے تاہم جذبہ ہو تو ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ اپنے آس پاس کمزور مالی حیثیت رکھنے والے افراداور کورونا کے باعث بے روزگاری کا شکار افراد کو اس موقع پر ہر گز نہ بھولئے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عیدکی خوشیوں میں اضافہ کرنے کیلئے حکومت ایک قدم آگے بڑھائے اور مہنگائی کو قابو میں کرکے کم از اکم ان خاص دنوں کو تو عوام کو کھل کر منانے کا موقع فراہم کرے۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ عید بچوں کی ہوتی ہے،اور یہ اس اعتبار سے سچ بھی ہے کہ عید سے منسلک سرگرمیوں سے جو خوشی اور طمانیت بچوں کو ملتی ہے،وہ عام آدمی محسوس نہیں کر سکتا۔بچوں کوعید سے ملنے والی خوشی میں اہم کردار بڑوں کی طرف سے ملنے والی عیدی کا بھی ہوتا ہے۔نئے نئے نوٹوں سے اپنی چھوٹی چھوٹی جیبوں کو بھر لینا ان کے لیے بہت طمانیت بخش اور خوشی کا باعث ہوتا ہے۔اگرچہ گزشتہ 3سالوں سے کورونا کی وجہ سے تمام خوشیاں ماند ہو کر رہ گئیں تھیں تاہم اس بار عید کورونا پابندیوں کے خاتمے کے بعد منائی جار ہی ہے اس لئے عید کی خوشیاں کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔