کچھ دہائیوں پہلے ہی کی تو بات ہے لیکن لگتا ہے میں جس عید کا ذکر کرنے لگی ہوں شاید اسکو صدیاں بیت گئی ہیں کوئی نہایت پرانا زمانہ یاد کر رہی ہوں ہمارا بچپن ہمارا لڑکپن اور آج میں چند دہائیاں حائل ہوگئیں ہیں رمضان ختم ہوتے ہی سب عید کی بے پناہ خوشی میں سرشار ہوجاتے تھے گھروں کی صفائی ستھرائی تو پہلے سے شروع ہو چکی ہوتی تھی عید کی رات کو گدیلوں پر سے غلاف' تکیے بھی انہی رنگوں کے' بستر کی چادریں بدل دیں' بیٹھک کو نئے سرے سے صاف ستھرا کرکے نیا میز پوش' مہمانوں کے برتنوں کو صاف ستھرا کرکے رکھ دیا جاتا تھا مردوںکو بے چینی ہوتی تھی کہ عید کی رات تک درزی نے کپڑے سی کر نہیں دیئے تیار کپڑے دوکانوں پر ملنے کا کوئی تصور ہی نہیں تھا جو بھی بنانا ہے درزی نے ہی بنانا ہے سفید پوش پشاوری اپنا جوڑ ے کا کپڑا خریدیں گے دیر سے تو وہ درزی کے پاس بھی دیر سے ہی جائیگا اور پھر عید کی رات تک درزی بے چارے کی جان پر بنی ہوتی تھی آخر کار وہ مل ہی جاتا تھا درزی کو علم تھا کہ جو کپڑے میں سی رہا ہوں ایک تو وہ قیمتی دو گھوڑیاں بوسکی کی قیمض اور لٹھے کی شلوار ہے اور دوسرا پشاوریوں کا غصہ ان کے اردگرد ہی پھرتا رہتا تھا پھر روزوں کا مہینہ منہ بند کرکے گزار دینا کوئی اتنی آسان بات تو نہیں ہوتی تھی درزی بھی ہرانسان کے مزاج کے مطابق ڈیل کرتا اور اچھے کپڑے سی کر ان کا دل خوش کر دیتا' جہانگیرپورہ اور اردگرد کے علاقے آج کی چاند رات پشاوری چپلی کے کاروبار سے پورا فائدہ اٹھاتے چپلی جتنی آواز نکالنے والی ہوتی اتنی ہی چال میں بے پرواہی رعونت او نشہ ہوتا تھا۔ ناپ دے کر بنوائی گئی چپلی کی مانگ سب سے زیادہ ہوتی تھی بے شمار تگ ودو کے بعد آخر کار چپلی بھی آجاتی اور اب خاتون خانہ کی استری کا امتحان ہوتا تھا مردانہ کپڑے استری کرنا بھی اک کمال ہوتا ہے میری بہن اس کمال کی ماہر تھی لہٰذا اس کے ہاتھ سب کے کپڑے استری کر کرکے تھک جاتے تھے مبادا ترش مزاج رکھنے والا باپ یا بھائی خوش ہو سکے ۔ چاند رات کہنے کا ابھی کوئی رواج نہیں ہوا تھا عید کی رات یا عید والی رات' ہی اس آج کی چاند رات والی رات کا نام تھا آخری روزہ کھولتے ہی چھتیں آباد ہو جاتی تھیں اور نظریں مغرب کی سمت آسمان کی لالی کے اوپر' جس کی جتنی نظر تیز ہوتی آج اسکی واہ واہ ہوتی ۔ ہماری ماں چاند پر نظر پڑتے ہی دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دیتی تھی اور پھر مسجد سے بھی اعلان ہو جاتا تھا لڑکیاں مہندی گھروںمیں ہی لگاتی تھیں سلطانی مہندی نہ جانے آج کل ہوتی ہے یا نہیں ان دنوں ڈبوں میں نہیں کھلی لفافوں میں ملا کرتی تھی کئی گھنٹے پہلے اسکو گھول لیا جاتا تھا اور مائیں اپنی بیٹیوں کے ہاتھوں اور پائوں پر خود ہی ایسے لگائی تھیں کہ وہ پورے کے پورے مہندی سے ڈھک جاتے تھے اور پھر ان پر کپڑا لپیٹ دیا جاتاتھا نیند بھی ایسی معصوم ہوتی تھی کہ ہاتھ پائوں بندھے ہونے کے باوجود فوراً ہی آجاتی تھی اور صبح تک پائوں کے کپڑے تو کھلنے کے قریب ہوتے تھے ایسی ہی حالت میں حمام کی ٹوٹی کے نیچے تک پہنچ کر پائوں دھونا شروع کردیتے تھے اور سرخ ہاتھ پائوں دیکھ کر یک گونہ خوشی محسوس ہوتی تھی وہ اجنبی اور نامعلوم اور مانوس سی خوش جو بعد کے سالوں میں فیشنی مہندی اور ڈبوں والی مہندی سے کبھی بھی نہیں ملی ماں نے اصلی گھی کا تڑکا لگا کر سویاں تیار کرلی ہوتی تھیں شیرقورمہ کا رواج کم کم ہی تھا ابلی ہوئی سویاں' ملائی' دودھ اور شکر ڈال کر جوشیرینی اس پکوان میں ہوتی تھیں وہ خوشبو اور ذائقہ زندگی بھر کبھی نہ ملا بعد کے سالوں میں خود میں یہی سویاں ہمیشہ پکاتی رہی ہوں لیکن ماں کا ذائقہ کبھی بھی نہ رچا بسا ۔اس وقت عیدیاں بہت تھوڑی کرنسی میں ملتی تھیں آٹھ آنے ایک روپیہ5روپے اور سب سے بڑی عیدی 10 روپے ہی ہوتی تھی دروازوں کے باہر جھولے لگتے تھے اور نمک منڈی میں بھی جھولے ہوتے تھے ۔سادہ سے کپڑے' ہاتھوں پر مہندی' ہاتھ میں ایک روپیہ' گلی کی لڑکیاں جھولے جھولنے نکل پڑتیں ' کوئی ڈر' کوئی خوف کسی کے قریب بھی نہ پھٹکتا تھا لکڑی کی گاڑی' لڑی کے جھنجھنے اور تیلوں سے بنا ہوا لاٹو خرید کر لاتے لکڑی کی گاڑی بہت شور کرتی تندور بند ہوتے تھے کیونکہ انہوں نے بھی عیدمنانا ہوتی تھی گھروں میں روٹی پکتی تھی مرد گھر آکر ہی کھانا کھاتے تھے ہمسایوں کا ازحد خیال رکھا جاتا تھا سب کے چہروں پر خوشیاں اور منہ پر عید مبارک ہوتا تھا آج پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو سب کچھ بدلا بدلا نظر آتا ہے۔